qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

 اب کیا مٹن سے بھی لوگوں کے جذبات مجروح ہونے لگے ہیں۔؟

گائے کا گوشت کھانے سے تو ان لوگوں کے مذہبی جذبات یقینی طور پر مجروح ہوتے ہیں جو گائے کو مقدس مانتے ہیں اور اسکو ماں کا درجہ دیتے ہیں  لیکن  بھیڑ یا بکری کا گوشت کھانے سے کسی کے مذہبی جزبات کیسے  مجروح ہو جاتے ہیں یہ بات لوگوں کو وزیر اعظم مودی جی نے بتائی ہے۔ انہوں نے راہل گاندھی، لالو یادو اور تیجسوی یادو پر   بکری کا گوشت کھا کر ملک کے اکثریتی طبقے کے جزبات سے کھلواڑ  کرنے کا الزام لگایا ہے۔۔ یہ الزام انہوں نے اودھم پور میں ایک چناؤ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے لگایا۔ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دو ستمبر کے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے  راہل گاندھی، لالو یادو اور تیجسوی یادو پر ساون کے مہینے میں مٹن کھاکر مغل ذہنیت کا مظاہرہ کرنے کا الزام لگایاہے۔

 اس ملک کا آئین کسی بھی مذہب کو ماننے والوں، کوئی بھی زبان بولنے والوں،کسی بھی علاقے میں رہنے والوں کو یکساں حقوق  کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن گزشتہ دس برسوں میں ملکی آئین کی اس روح پر بہت کاری ضربیں لگائی جا رہی ہیں۔ صرف مذہب اور زبان کی بنیاد پر عوام  کو خانوں میں تقسیم کرکے انکے اندر ایک دوسرے کے تئیں نفرت پیدا کرنے کا چلن عام ہو گیا ہے۔ اس ملک کا شہری کیا کھاتا ہے کیا پہنتا ہے۔  کیا سوچتا ہے اب اس پر بھی پابندی لگائی جانے لگی ہے۔ جہاں تک گو کشی اور  بیف کھانے کی بات ہے تو ہندستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اس بات کا لحاظ رکھا ہے کہ انکے کسی فعل  یا اقدام سے  انکے ہندو بھائیوں کے جزبات مجروح نہ ہوں۔  اس ملک کے مسلمان گو کشی پر عائد قانونی پابندی کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن گو کشی کے جھوٹے الزامات لگا کر مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کا رواج اب عام ہو گیا ہے۔ ایک منظم منصوبے کے تحت مختلف بہانوں سے ملک کے اقلیتی طبقے کو ہراساں کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔  لوگوں کو کیا کھانا چاہئے کیا پہننا چاہئے یہ انکا ذاتی معاملہ  ہے ۔ کوئی حکومت اور   کوئی گروہ دوسروں کو یہ ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا کہ انہیں کیا کھانا چاہئے  اور کیا پہننا چاہئے۔

 اس ملک میں وہ مسلمان بھی آباد ہیں جو ہندو بھائیوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے بیف کو ہاتھ نہیں لگاتے لیکن اسی ملک میں وہ ہندو بھی آباد ہیں جو دھڑلے سے بیف کھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ انکے کلچر کا حصہ ہے۔ آسام اور بنگال جیسی ریاستوں میں ہندو بیف کھانے میں کوئی پرہیز نہیں کرتے۔ کشمیر کے  پنڈت   سال بھرمٹن کھاتے ہیں۔ ان میں کچھ پنڈت ساون کے مہینے میں مٹن کھانے سے پرہیز کرتے ہیں لیکن بہت سے کشمیری پنڈت  ساون اور نو راتروں میں بھی مٹن کھاتے ہیں۔ یہ انکی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ انکو ڈنڈے کے زور پر نہیں روکا جاسکتا۔ نفرت کی سیاست  ملک کے بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر اس قدر حاوی ہو گئی ہیکہ بد عنوانوں اور ہسٹری شیٹر  غنڈوں تک کے معاملے میں ہندو مسلم دیکھا جانے لگا ہے۔ اگر کوئی غنڈہ بد معاش اورہسٹری شیٹر مسلمان ہے تو اسکے پولیس تحویل میں یا ماورائے عدالت قتل کرنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ملک کا آئین  ملک کے ہر شہری کوقاننی لڑائی کے ذریعے انصاف حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔ آئین  مذہبی  آزادی اور اپنے مذہبی رسم و رواج پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے۔ آئین نے کسی مذہبی یا سماجی گروہ کو یہ اجازت نہیں دی ہیکہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں اور انکی عبادت گاہوں کی توہین کرے۔

ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے تئیں نفرت کا ماحول تو  اب بارہ مہینے عام ہے لیکن  انتخابات کے دوران اس میں کچھ زیادہ ہی شدت آجاتی ہے۔ ‘سب کا وشواس اور سب کا  وکاس’ کی بات کرنے والے وزیر اعظم بھی چناؤ ماحول میں دوسرے ہی رنگ میں نظر آتے ہیں۔ اودھم پور میں انہوں نے  ریلی سے خطاب کرتے ہوئے دو ستمبر کے ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے ایسا بیان دیا کہ جسے انکے شایان شان نہیں کہا جاسکتا۔ وزیر اعظم کے بقول دو ستمبر  کو راہل گاندھی لالو یادو کے گھر گئے تھے  جہاں انہوں نے مٹن پکایا تھا  اور اسکا ویڈیو اپنے یو ٹیوب چینل پر اپ لوڈ بھی کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کانگریس اور انڈیا اتحاد کے لیڈروں نے ساون کے مہینے میں مٹن کھا کر  ملک کے اکثریتی طبقے کے جزبات کو ٹھیس پہونچائی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ  یہ لیڈرز مغل ذہنیت   کے زیر اثر ہیں اور انہیں ہندؤں کے مذہبی جزبات کو ٹھیس پہونچا کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔

وزیر اعظم مودی نے اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ گوشت یا ترکاری کھانے کا ہر شخص کو اختیار ہے لیکن ان لیڈروں کی نیت  شک کرنے لائق ہے۔ ملک کا قانون کسی کو کچھ بھی کھانے سے نہیں روکتا ہے لیکن ان لیڈروں کی نیت کچھ اور ہی ہے۔

 جہاں تک دوسروں کے مذہبی جزبات کا خیال رکھنے کی بات ہے تو اس معاملے میں انصاف سے کام لیا جانا چاہئے۔ کسی مسجد  کے باہر نماز کے وقت ڈی جے بجا نے اور اشتعال انگیز نعرے لگا نے سے کیا  اس فرقے کے مذہبی جزبات مجروح نہیں ہوتے ہیں۔ معمولی معمولی خطاؤں پر مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کردیا جاتا ہے تب کیا اس فرقے کے جزبات مجروح نہیں ہوتے ہیں۔ خاص طور سے اس وقت کہ جب  بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں  کے گھروں پر  بلڈوزر صرف اس لئے نہیں چلائے جاتے کیونکہ انکا تعلق مسلم فرقے سے نہیں ہے۔  وزیر اعظم کو ان واقعات کا بھی نوٹس لینا چاہئے اور کھل کر اپنی ناراضگی ظاہر کرنی چاہئے ۔  کیونکہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں  صرف ہندؤں کے وزیر اعظم نہیں ہیں۔

تحریر۔جمال عباس فہمی

یہ بھی پڑھئے۔۔https://www.qaumikhabrein.com/news/political-scenario-modi-guanrantee/

Related posts

کورونا وائرس کے بعد پہلی بار10لاکھ مسلمان فریضہ حج ادا کریں گے۔

qaumikhabrein

پوترا پورٹل شکشن سیوک بھرتی میں اُردو میڈیم طلباء کو راحت۔۔

qaumikhabrein

سیکولر پارٹیوں کے ایجنڈے سے مسلمان غائب۔از سراج نقوی

qaumikhabrein

Leave a Comment