ہندستان کے شیعہ حلقوں میں علما کا ایک گروہ 29رمضان کو چاند کو کھینچ کھانچ کر زمین پر اتارنے کی کوشش میں لگا رہا۔ کسی بھی طرح چاند کی رویت ثابت کرنے کے لئے علما کا یہ گروہ مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی کے ایک بیان کے حوالے سے یہ کہتا رہا کہ ہندستان میں شوال کا چاند ہو گیا ہے اور عید الفطر بدھ کے روز 10 اپریل کو ہوگی۔ اس گروہ کی کمان لکھنؤ میں بیٹھا وہ شخص سنبھالے ہوئے تھا جو خود کو آیت اللہ سیستانی کا وکیل کہتا ہے۔ اسکا نام ہے اشرف غروی۔
اہم بات یہ ہیکہ سیستانی کے اس نام نہاد وکیل کی ہاں میں ہاں ممبئی کے نجفی ہاؤس میں براجمان مولانا احمد علی ملا رہے تھے وہ بھی خود کو آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ خامنہ ای کا وکیل بتاتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے ایک اور وکیل بنارس کے مولانا شمیم الحسن کا مولانا احمد علی کے سلسلے میں یہ کہنا ہیکہ انکے پاس صرف خمس جمع کرکے نجف بھیجنے کی ذمہ داری ہے وہ باقاعدہ آیت اللہ سیستانی کے وکیل نہیں ہیں۔ رویت ہلال کے تعلق سے آیت اللہ سیستانی کے مبینہ بیان کی بنیاد پر اشرف غروی کے زوردار تائیدی بیان اور مولانا احمد علی کے سر میں سر ملانے کے بعد لکھنؤ کے مولانا سیف عباس بھی پلٹی مار گئے۔ انہوں نے پہلے یہ اعلان کیا کہ ملک بھر میں سوائے کرگل کے کہیں سے بھی چاند نظر آنے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اس لئے عید 11 اپریل کو ہو گی لیکن محض ایک گھنٹے کے اندر مولانا سیف عباس کا بھی بیان آگیا کہ آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے تصدیق ہونے کے بعد ہندستان میں چاند کی رویت ثابت ہو گئی ہے اور عید 10 اپریل بروز بدھ ہوگی۔۔
علما کے اس گروہ کی بیان بازی کے سبب ملک بھر کے شیعوں میں ایک عجیب سا کنفیوزن پیدا ہو گیا۔ معاملہ آیت اللہ سیستانی کے وکیلوں کے ذریعے تصدیق کا تھا اس لئے آیت اللہ سیستانی کے مقلدین کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ دس اپریل کو عید منانے پر آمادہ ہو جائیں۔کئی برس سے علما کا ایک گروہ عام شیعوں کے دلوں میں یہ یقین قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہیکہ چاند کے مسئلہ میں بھی مرجع تقلید کا بیان یا فتوا لائق عمل ہوتا ہے۔ جبکہ شرعی حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ خود آیت اللہ سیستانی کا فتوا اس سلسلے میں موجود ہیکہ ”حاکم شرع یعنی مرجع تقلید کے کہنے سے چاند کی رویت ثابت نہیں ہو تی ہے۔”
ہر مرجع تقلید نے چاند کی رویت ثابت ہونے کے سلسلے میں واضح طور پر اپنے رسالوں اور مسائل کی کتابوں میں لکھ دیا ہے۔ خود آیت اللہ سیستانی جنکے نام کا سہارا لیکر ہندستان میں زبردستی چاند کی رویت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی انہوں نے اپنی توضیع المسائل میں واضح طور پر لکھ دیا ہیکہ
چاند ثابت ہونے کے چار طریقے ہیں۔
( ایک ) انسان خود چاند دیکھے۔
(دو) ایک ایسا گروہ جسکی بات پر یقین ہو اور وہ یہ کہے کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔
(تین) دو عادل مرد کہیں کہ انہوں نے خود چاند دیکھا ہے۔
(چار) شعبان کی یکم سے اگر تیس روز گزر جائیں تو 31 ویں روزکو پہلی تاریخ ہوگی۔
چاند کی رویت کے نام پر اٹھے اس تنازعہ سے اس بڑی سازش کا سلسلہ بھی ثابت ہو گیا ہیکہ جسکے ذریعے مراجع تقلید سے عوام کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سازش سے بھی پردہ اٹھ گیا کہ جو شعیوں کے اندر اختلافات اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔ اس قضیہ سے اس سازش کی بھی بو آرہی ہیکہ جسکا مقصد سنیوں اور شعیوں کے درمیان فاصلوں کو نہ صرف برقراررکھنا ہیکہ بلکہ انکو مزید بڑھانا ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر سبط حسن نقوی کا اس پورے تنازعہ پر یہ تجزیہ دل کو لگتا ہیکہ” رویت ہلال کے قضیہ سے ایک بڑا فائدہ ہوا ہے کہ ”پہلی کا چاند قلادۂ تقلید سے آزاد ہو گیا ہے۔آزادی کا فرمان آیت اللہ سیستانی دامت برکتہ کے مسئلہ نمبر ۱۷۴۰ میں موجود تھا لیکن ان کے وکیل اس کو چھپا کر عوام پر اپنی مرجعیت قائم کئے ہوئے تھے۔جس وکیل کی نظر میں اپنے مرجع تقلید کا رسالہ عملیہ نہ ہو اس کو کاسہ بردار خمس تو کہا جا سکتا ہے فقاہت کا وکیل نہیں۔”
قابل مبارکباد ہیں ملک کے وہ علما جنہوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ شیعوں کے دلوں میں اپنے مراجع کا احترام باقی رکھا اور شیعوں کے اندر تفرقہ پردازی کی سازش کو ناکام بنایا۔
جمال عباس فہمی
2 comments
پچھلے 15سال سے عید میں کوئی گڑبڑی نہیں ہو رہی تھی کیوںکه مولانا کلب صادق صاحب پہلے ہی عید کی تاریخ کا علان کر دیتے تھے اور لوگ مان بھی لیتے تھے کوئی بھی حاکم شعریت سے رجو نہیں کرتا تھا مگر اب کیا ہوگیا که ہر ایک مولوی نے اپنی اپنی دمائی اینٹ کی مسجد بنا لی اور قوم کی خوب حسی اڈوائی جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضہ ہے که چاند کے سلسلہ میں فتوا نہیں ہے پھر کیوں ایک ٹولہ گمراہی پھلانے میں لگا رہا
شکریہ جناب میری ویب سائٹ وزٹ کرنے اور مضامین پڑھنے کا۔ اور رد عمل ظاہر کرنےکا بھی خاص طور سے شکریہ۔