‘میں تیرے منھ پر جھوٹ بولوں تو میرا کیا کر لے’۔ ‘سفید جھوٹ’۔ ‘جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھس جانا’۔ ‘جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا’۔ جھوٹ کو اتنا بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔’ ‘بے سر پیر کی اڑانا’۔
جھوٹ کے تعلق سے اتنے محاوروں اور قول کا استعمال آج اگر کسی شخصیت کے سلسلے میں ہو سکتا ہے تو وہ شخصیت ہیں ملک کے وزیر اعظم جیسے جلیل القدر عہدے پر براجمان نریندر مودی جی۔ بڑے بزرگوں سے سنا ہیکہ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم جی کے لئے تو جھوٹ بولنے کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ وہ خالی سفید جھوٹ نہیں بولتے بلکہ دودھ سے زیادہ سفید ایسا چمکیلا جھوٹ بولتے ہیں کہ سامنے والی کی آنکھیں چندھیا جائیں۔۔گزشتہ دس برسوں میں انہوں نے کتنے جھوٹ بولے ہیں اسکا تو کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے لیکن الیکشن کے زمانے میں وہ جھوٹ کے امبار لگا دیتے ہیں۔ مودی جی کا جھوٹ دو دھاری تلوار کی مانند ہوتا ہے وہ اپنے آپ میں تو جھوٹ ہوتا ہی ہے اسکے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لئے نفرت کی دیوار بھی کھڑی کردیتا ہے۔ ایسا جھوٹ بہت خطر ناک اور مہلک ہوتا ہے۔ اور موجودہ الیکشن کے دوران مودی جی ایسے ہی خطرناک ترین اور مہلک ترین جھوٹ بول رہے ہیں۔
انکے تازہ اور خطر ناک جھوٹ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کانگریس کے چناؤ مینی فیسٹو کے تعلق سے ہے اور دونوں جھوٹوں کی آڑ میں نشانہ ملک کے مسلمان ہیں۔ انکے ان جھوٹوں کی وجہ سے ملک کے اکثریتی طبقے کے اندر مسلمانوں کے تئیں نفرت میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ مودی جی من موہن سنگھ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے دسمبر2006 میں کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے جبکہ حقیقت اسکے بالکل بر عکس ہے۔ مودی جی نے سابق وزیر اعظم کے جس بیان کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کے تئیں نفرت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ در اصل یہ تھا کہ” ملک کے وسائل پر سب سے پہلا حق ‘ایس سی’ ،’ایس ٹی’ ،’او بی سی’، اقلیتوں، خواتین اور بچوں کا ہے۔” لیکن مودی جی نے بڑی چالاکی سے ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، خواتین اور بچوں کو الگ کرکے یہ کہدیا کہ من موہن سنگھ کے مطابق ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ مودی جی نے بڑی چالاکی کے ساتھ من موہن کے مبینہ بیان کو کانگریس کے مینی فیسٹو اور راہل گاندھی کے ایک بیان کے ساتھ جوڑ کر جو جھوٹ بولا وہ بہت خطرناک ہو گیا۔ مودی جی نے راجستھان اور علیگڑھ میں الیکشن ریلیوں میں کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو ملک کی دولت کو ان لوگوں میں تقسیم کردیگی جنکے زیادہ بچے ہیں اور جو گھس پیٹھیئے ہیں ۔ انکا صاف صاف اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے۔ جبکہ کانگریس کے مینی فیسٹو میں ملک کی دولت اور وسائل کی تقسیم کی بات ہی نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا ہیکہ اگروہ اقتدار میں آٗئی تو پالیسی میں مناسب تبدیلیوں کے ذریعے دولت اور آمدنی کی بڑھتی ہوئی غیر برابری کو دور کرنے کی کوشش کریگی۔” کانگریس کے مینی فیسٹو میں برابری کے عنوان سے ایک چیپٹر میں ذات پات پر مبنی بھید بھاؤ کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا ہیکہ ملک کی 70 فیصد آبادی او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی پر مشتمل ہے لیکن مختلف پیشوں، ملازمتوں اور تجارت میں انکی نمائندگی بہت کم ہے۔” مینی فیسٹو میں وعدہ کیا گیا کہ مختلف ذاتوں سےتعلق رکھنے والے لوگوں کی سماجی اور مالی حالت کا پتہ لگانے کے لئے ایک سروے کرایا جائےگا۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے راہل گاندھی کا کہنا ہیکہ ”یہ پتہ لگایا جائےگا کہ ملک کی دولت کس کے ہاتھوں میں ہے۔ کون سے طبقے کے ہاتھوں میں ہے اور اس تاریخی قدم کے بعد ہم انقلابی کام شروع کریں گے۔ جو آپکا حق بنتا ہے وہ آپکو دینے کا کام کیا جائےگا۔”
اب مودی جی کی چالاکی دیکھئے کہ انہوں نے من موہن سنگھ اور راہل گاندھی کے بیانوں اور کانگریس کے مینی فیسٹو کے وعدوں کو استعمال کرکے ایک ایسا جھوٹ گڑھا جس سے ملک کے اکثریتی طبقے کے دل میں مسلمانوں کے لئے نفرت بھی بڑھ گئی اور کانگریس کو اکثریتی طبقے کا دشمن بھی ٹھہرا دیا۔
مودی جی نے کہا کہ ”کانگریس حکومت ملک کی دولت گھس پیٹھیوں اور زیادہ بچوں والوں کے درمیان تقسیم کردیگی۔ کانگریس اور انڈیا اتحاد کی آنکھیں لوگوں کی آمدنی اور پراپرٹی پر ہیں۔ کانگریس کے شہزادے کہتے ہیں کہ وہ یہ جانچ کرائیں گے کہ کس کی کتنی آمدنی ہے۔ کس کے کتنی پراپرٹی ہے۔ کس کے پاس کتنے پیسے ہیں۔ کس کے پاس کتنے مکان ہیں۔ اور اسکے بعد کانگریس حکومت تمام پراپرٹی کو اپنے قبضے میں لے لیگی اور لوگوں میں باٹ دیگی۔ ہماری ماؤں بہنوں کے پاس جو سونا ہے وہ استری دھن ہے وہ مقدس ہے۔ قانوں بھی اسکی حفاظت کرتا ہے۔ انکی آنکھیں تمہارے منگل سوتر پر ہیں۔”
مودی جی نے کہاں کی بات کہاں فٹ کرکے جھوٹ کا ایک پہاڑ کھڑا کر دیا۔ کانگریس پارٹی نے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے شکایت کی ہے۔ انکے بیان کی کلیپنگ اور ٹویٹر پر انکے بیان کی فوٹو کاپی بھی ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم پر ملک کے فرقوں کے درمیان نفرت کا زہر پھیلانے اور چناؤ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔لیکن چناؤ کمیشن جس بے غیرتی کے ساتھ حکومت کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مودی جی سے کوئی جواب بھی طلب کریگا۔