
غزہ میں مسلسل اسرائیلی نسل کشی کے سبب جنوبی شہر خان یونس ایک دردناک بحران سے دوچار ہے۔ شہر کے واحد مرکزی قبرستان میں اب قبروں کی گنجائش مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ اب شہداء کی لاشیں بغیر تدفین کے زمین پر پڑی ہیں۔فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق، خان یونس کے ناصر اسپتال کے سامنے ایک بورڈ آویزاں کیا گیا ہے جس پر درج ہے: “ہم مطلع کرتے ہیں کہ ہمارے پاس مزید قبریں دستیاب نہیں ہیں؛ ساری گنجائش مکمل ہوچکی ہے۔” اس اعلان نے ایک نئے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق، منگل کی دوپہر تک کم از کم سات شہداء کی لاشیں قبرستان کے باہر زمین پر رکھی ہوئی تھیں، جن کے ورثاء تدفین کے لیے جگہ تلاش کرنے سے قاصر تھے۔ فلسطینی صحافی سراج طبش نے اپنے بیان میں کہا: “شہدا کی لاشیں زیر آسمان پڑی ہوئی ہیں، جنہیں دفنانے کے لیے زمین میسر نہیں؛ اے دنیا! ہم کہاں آ پہنچے ہیں؟”

اس حوالے سے خان یونس کے محکمہ اوقاف کے سربراہ محمد الغلبان نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں شہداء کی تدفین ایک شدید انسانی بحران بن چکا ہے۔ ان کے مطابق، نہ صرف زندہ انسان اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں، بلکہ مردوں کی حرمت بھی پامال ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک غزہ کے ۶۰ قبرستانوں میں سے تقریباً ۴۰ کو تباہ کر دیا گیا ہے، جن میں خانیونس کا حاج محمد قبرستان بھی شامل ہے، جہاں شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔

الغلبان کے مطابق، غزہ میں تمام داخلی قبرستان اب مکمل بھر چکے ہیں اور جو قبرستان باقی رہ گئے ہیں وہ اسرائیلی فوج کے کنٹرول والے سرحدی علاقوں میں واقع ہیں، جہاں تک پہنچنا ناممکن ہے۔یہ صورتحال نہ صرف اسرائیلی جرائم کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ عالمی ضمیر کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے، جو انسانی لاشوں کے لیے زمین کے چند گز بھی مہیا نہ کر سکا