
یوگی آدتیہ کے ایک بیان پر اپنے ردعمل میں سوامی پرساد موریہ نے کہا ہے کہ ”یہ سی ایم کی نہیں غنڈوں کی زبان ہے۔“دراصل یوگی کا یہ بیان کیرانہ کے سماجوادی پارٹی لیڈر ناہید حسن کے کچھ حامیوں کی طرف سے مبینہ طور پر دی گئی دھمکیوں کے جواب میں آیا تھا۔۔یوگی نے کہا تھا کہ کیرانہ اور مظفر نگر میں پھر کچھ لوگ گرمی دکھا رہے ہیں…..یہ گرمی جو ابھی کیرانہ اور مظفر نگر میں کچھ جگہوں پر دکھائی دے رہی ہے۔شانت ہو جائیگی۔کیونکہ گرمی کیسے شانت ہوگی……یہ تو میں مئی اور جون میں بھی شملہ بنا دیتا ہوں“۔اب یوگی کو یہ کون یاد دلائے کہ اگر وہ اتنے ہی گرمی شانت کرنے والے ہیں تو پارلیمنٹ کی رکنیت کے دوران یو پی حکومت کے مبینہ مظالم پر لوک سبھا میں رونے کے بجائے انھوں نے خود کیوں اپنے مخالفین کی گرمی شانت کرنے کا کام نہیں کیا تھا۔“بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یوگی وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے جو زبان اب تک بولتے رہے ہیں اسے کسی بھی طرح ایک باوقار عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کی زبان قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ بات بھی طے ہے کہ یوگی کی دھمکیوں کے پس پشت ان کی اپنی طاقت نہیں بلکہ اقتدار کا نشہ ہے اوراسے اقتدار کے ناجائز استعمال کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یوگی راج میں قانون کی طاقت کا جس بے دریغ طریقے سے استعمال ہوا اس کے سبب کئی مرتبہ عدالتوں نے بھی ان کی سرزنش کی ہے۔ غیض میں دھمکیاں دینے کا یہ مزاج کسی ذمہ دار شخص کا تو قطعی نہیں ہو سکتا۔اگر برسر اقتدار لوگ قانون کی بجائے دھمکیوں کا سہارا لینے لگیں تواس سے سماج میں منفی پیغام جاتا ہے اور جنگل راج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

اگر ناہید حسن یا ان کے کسی حامی نے کوئی دھمکی دی بھی تھی تو اس کے جواب میں ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی جا سکتی تھی۔پولیس کے سامنے رپورٹ درج ہو سکتی تھی اور مناسب قانونی کارروائی کی جا سکتی تھی،لیکن 10مارچ کے بعد ”گرمی شانت کر دینے“کی بات کہہ کر یوگی نے اپنے عہدے کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے اور خود اپنے طرز فکر کا ثبوت دیا ہے۔اس کا الیکشن کے موقع پر انھیں نقصان ہی ہوگا۔لیکن شائد یوگی مان بیٹھے ہیں کہ وزارت اعلیٰ پر ان کا موروثی حق ہے۔شائد وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ طاقت کا مظاہرہ صرف وہی کر سکتے ہیں۔کہنے کی ضرورت نہیں اس سے سماج میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔
یہی سبب ہے کہ یوگی کے بیان نے ان کے مخالفین کو بھی غیر ذمہ دارانہ زبان بولنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔مثلاً آر ایل ڈی سپریمو جینت چودھری نے یوگی کے بیان پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ”لگتا ہے کہ گذشتہ ہفتے آئی سرد لہر میں انھیں ٹھنڈ لگ گئی ہے۔“جینت نے آگے کہا کہ،”جنتا اس بار ای وی ایم پر ہینڈ پمپ کے نشان کا بٹن دبا کر بی جے پی کی چربی اتار دیگی۔“اکھیلیش یادو نے یوگی کے بیان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ جو وزیر اعلیٰ کے اندر گرمی آرہی ہے وہ اس لیے کہ کیونکہ وہ جگہ جگہ سے ٹکٹ مانگ رہے تھے،من پسند جگہ سے ٹکٹ نہیں ملاانھیں گھر بھیج دیا۔“

لیکن وزیر اعلیٰ کے متنازعہ بیان پر سب سے سخت ردعمل سوامی پرساد موریہ کا آیا ہے۔واضح رہے کہ موریہ کچھ دن پہلے تک یوگی کابینہ میں وزیر تھے اور حال ہی میں بی جے پی سے استعفیٰ دیکر سماجوادی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔موریہ ایک چینل پر منعقد پروگرام میں بول رہے تھے۔اس دوران اینکر نے ان سے یوگی کے مذکورہ بیان کے تعلق سے سوال کیا تو موریہ نے جواب میں کہا کہ،”یہ بیان کسی وزیر اعلیٰ کا نہیں بلکہ کسی غنڈے،مافیا اور موالی کا ہے۔“موریہ یہیں نہیں رکے بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ،”10 مارچ کو گرمی اتارنے والوں کی گرمی اتار دی جائے گی۔یہ دوسروں کی گرمی اتارنے لائق نہیں رہیں گے۔“ موریہ کی زبان بھی کسی طرح جمہوری سیاست کے وقار کے مطابق نہیں ہے،لیکن ایسے معاملوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری حکمراں طبقے پر ہوتی ہے۔بدقسمتی سے موجودہ حکمراں ٹولہ اس معاملے سابقہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ غیر ذمہ دار نظر آتا ہے۔قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا یہ مزاج بیشتر بی جے پی لیڈروں کے عمل میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیاں مثلاً پولیس،سی بی آئی یا ای ڈی اور اسی طرح کی دیگر ایجنسیوں کے رویے میں بھی قانون کے احترام میں کمی نظر آتی ہے۔بی جے پی حکمرانوں نے صرف بد زبانی کے کلچر کو ہی فروغ نہیں دیا بلکہ ملک کے آئینی اداروں اور آئینی عہدوں کو بھی اس کلچر کے جہنم میں جھونکنے کا کام کیا ہے۔مثلاً گورنر جیسے آئینی عہدے کو ہی لیں۔بی جے پی کے مقرر کردہ گورنر اپوزیشن پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں جس طرح کا طرز عمل اختیار کر رہے ہیں،اور وزرائے اعلیٰ کے خلاف جو زبان بول رہے ہیں وہ ہماری آئینی روایات کی توہین کے مترادف ہیں۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ آئینی عہدوں کی عظمت کو پامال کرنے میں کانگریس کا کوئی رول نہ رہا ہو،خصوصاً گورنر کے عہدے کا جس طرح غلط استعمال کانگریس کے دور اقتدار میں ہوا ہے اس سے بھی ہماری جمہوریت کے وقار کو نقصان پہنچا ہے

،لیکن جہاں تک بی جے پی کا معاملہ ہے اس کے کئی قائدین نے بدزبانی کی تمام حدیں پار کرکے جمہوریت کو شرمندہ کیا ہے۔وزیر اعظم مودی کے قبرستان اور شمشان والے بیان کو کون بھول سکتا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اب سے پہلے ایسے معاملات میں اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ کم از کم بد زبانی سے گریز کرتے تھے،لیکن یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ،”آوے کا آوا ہی ڈوبا ہوا ہے۔‘ایسا نہ ہوتا تو یوگی کی زبان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بی جے پی ہائی کمان میں سے کسی لیڈر کا بیان سامنے آتا۔الیکشن کمیشن ایسے معاملے کا از خود نوٹس لیتا یا کوئی عدالتی کاروائی ایسے بیانات کو لیکر ہوتی،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس حکمراں جماعت کے تمام لیڈروں نے اپنی خاموشی سے یوگی کے بیان کی حمایت کا کام کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اسی بد زبانی کا سہارا لیکر یوگی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے آئینی حدود کو پار کرنے کے معاملے میں اپوزیشن لیڈر بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ہمارا آئین کہتا ہے کہ ذات،مذہب اور نسل کے نام پر کسی سے ووٹ نہیں مانگا جا سکتا لیکن بیشتر سیاسی پارٹیاں اسی بنیاد پر اپنے اپنے امیدواروں کو جتانے کے لیے کوشاں ہیں۔اتر پردیش کی حالیہ انتخابی مہم میں وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ تک نے جس طرح بالواسطہ طور پر مظفرنگر فساد کا ذکر کیا،جس طرح امت شاہ نے جاٹوں سے بی جے پی کے حق میں ووٹنگ کی اپیل کرتے ہوئے مغلوں کے خلاف اپنا غصہ اتارا،جس طرح کئی مسلم لیڈروں کا نام لے کر
فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے اور اس طرح ووٹوں کی صف بندی کی کوشش کی گئی اسے کیا کہا جائے؟ جہاں تک یوگی کا معاملہ ہے ان کے بہت سے بیانات پہلے بھی فرقہ وارانہ اشتعال کا سبب بنتے رہے ہیں۔گذشتہ الیکشن کے موقع پر مایاوتی کو نشانہ بناتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ان کے ساتھ علی ہیں تو ہمارے ساتھ بجرنگ بلی ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے ایسے بیانات پر تمام آئینی اداروں اور میڈیا تک نے خاموشی اختیار کر لی۔اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست دانوں کی بدزبانی میں کمی آنا تو دور اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔یوگی کااقتدار کے زعم میں دھمکیاں دینا بھی اسی بدزبانی کا ثبوت ہے جسے موریہ نے ”غنڈوں کی زبان“کہاہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330