ہر انسان کی زندگی میں کچھ نہ کچھ مقاصد ہوتے ہیں جن کے حصول کے لئے وہ پہلے سے کچھ تیاریاں کرتا ہے۔ وہ ان تمام وسائل کو مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسکے مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ انسانی زندگی دو اجزاء سے عبارت ہے ۔ اک جسمانی دوسرا روحانی اس لئے اسکی زندگی کے یہ مقاصد اس کی جسمانی اور روحانی زندگی کی بقا کے لئے بے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کوئی مقصد جتنا اہم اور ضروری ہوتا ہے اتنا ہی اسکے حصول کے لئے منظم اور موثر وسائل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر سر دست اس مقصد کے مطابق اسکے پاس ضروری وسائل موجود نہیں ہوتے تو وہ ان وسائل کو مہیا کرنے کی سعی کرتا ہے تاکہ وہ اپنا مقصد بخوبی اور بروقت حاصل کرسکے۔ جو لوگ ان وسائل کو مہیا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس سلسلہ میں اگر اسے اپنی روزمرہ کی زندگی کی ترجیحات میں کچھ تبدیلی کرنا ضروری ہو تو وہ کرتا ہے تاکہ وہ اپنا مقصد ہر حال میں حاصل کرسکے۔
اس سلسلہ میں انسان کو کبھی کبھی سفر کرنے کی بھی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ اب اگر سفر مشکل یا طویل ہے تو زادہ سفر بھی اسی مناسبت سے ہمراہ لیا جائیگا۔ اسی طرح اگر مقصد کسی عظیم شخصیت یا حکومت سے کوئی بہت عظیم انعام یا اعزاز وصول کرنےجانا ہو تو تیاری بھی اسی مناسبت سے کرنا پڑیگی۔ خصوصا” اک ایسا پروگرام جو سال بھر میں ایک بار ہی منعقد کیا جاتا ہو اس میں شمولیت کے لئے ضروری لوازمات کو پہلے سے مہیا کرنا اشد ضروری سمجھا جاتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کسی شہری کو اسکے حاکم اعلی کے دربار میں ایک خاص وقت میں مدعو کیا گیا ہو اور وہ وہاں حاضر ہونے کے لئے اس میزبان کی شایان شان ان لوازمات کی تیاری نہ کرے جو عام طور سے ضروری سمجھی جاتی ہیں؟
بس اسی طرح ہر سال ماہ مبارک رمضان میں ہر مسلمان اللہ تعالی کا مہمان بنایا جاتا ہے۔ آںحضرت رسول کر یم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے ” یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالی نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے۔ ” (خطبہ آخر شعبان)
یہ ماہ رمضان مبارک کی برکتیں ہیں جن کے باعث ہر مسلم کو اللہ تعالی یہ عزت و شرف عطا کرتا ہے۔ تو کیا اللہ تعالی کی جانب سے مدعو کی جانے والی اس ضیافت کے لئے ہر مسلم کو وہ تیاریاں نہیں کرنا چاہئے جو اس کے مقصد کے حصول سے مطابقت رکھتی ہیں۔
اب یہ وہ وقت ہے کہ جب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے۔ کیا ہم ماہ مبارک رمضان کے استقبال کے لئے اس کے مقصد کے مطابق مستعد ہیں یا نہیں ؟
رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریوں کا جائزہ لینے سے قبل یہ ضروری ہے کہ ہم ایک بار پھر اس ماہ مبارک اور اس میں انجام دی جانے والی روزہ کی عبادت کی عظمت اور فیوض و برکات کو ذہن نشین کرلیں اور روزہ کی عبادت کے حقیقی مقصد کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
رمضان کہ اہمیت اور عظمت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی اس ماہ مبارک کے
بارے میں سورہ البقرہ آیت ۱۸۵ میں ارشاد فرماتا ہے:
” ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔ “
ماہ مبارک رمضان کی عظمت کے پیش نظر اس کے شایان شان استقبال کی تیاریوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے آںحضرت ص نے اپنے ماہ شعبان کے آخر میں دئے گئے مشہور خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا :
” اے لوگوں تمہاری طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آرہا ہے جس میں گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ یہ مہینہ خدا کے یہاں تمام مہینوں سے افضل و بہتر ہے۔ جس کے دن دوسرے دنوں سے بہتر جس کی راتیں دوسرے مہینوں کی راتوں سے بہتر اور جس کی گھڑیاں دوسرے مہینوں کی گھڑیوں سے بہتر ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں حق تعالی نے تمہیں اپنی مہمان نوازی میں بلایا ہے اور اس مہینہ میں خدا نے تمہیں بزرگی والے لوگوں میں قرار دیا ہے کہ اس میں سانس لینا تمہاری تسبیح اور تمہار سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے۔ اس میں تمہارے اعمال قبول کئے جاتے اور دعائیں منظور کی جاتی ہیں۔۔۔۔”
ماہ مبارک رمضان اور روزہ کی عبادت کے مقاصد کو اللہ تعالی نے قرآن ہی میں بیان فرمادیا ہے تاکہ اہل ایمان اس کے عظیم فیوض و برکات سے بہرہ ور ہوجائیں۔
سورہ البقرہ کی ایت نمبر ۱۸۳ میں اللہ تعالی ارشاد فرما رہا ہے:
” اے ایمان والوں تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔”
اس آیت مبارکہ میں روزہ کا مقصد تقوی یعنی پرہیزگاری حاصل کرنا واضح کردیا گیا ہے۔ با الفاظ دیگر روزہ کی عبادت بجالانے پر انسان کے اندر تقوی پیدا ہوتا ہے۔ اور تقوی کے درجہ پر فائز ہونے کے لئے صرف کھانا پینا ہی ترک کرنا کافی نہ ہوگا بلکہ روزہ دار کو منکرات سے پرہیز اور نیک اعمال کو اختیار کرنے سے ہی یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ یوں تو شریعت کے مطابق ہرمسلمان کو ہر وقت منکرات سے پریز کرنا اور قرب الہئ حاصل کرنے کی خاطر نیک اعمال بجالانے کا حکم ہے مگر ماہ رمضان کے دوران ان اعمال کو بجالانا باعث اجرو ثواب اور مغفرت الہی کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لئے ماہ مبارک رمضان میں ایسے مقامات اور مواقع سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے جو منکرات میں ملوث ہونے کے محرک ہوسکتے ہیں۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے سب سے موثر اور آسان طریقہ یہی ہے کہ ہر مسلمان خود کو زیادہ سے زیادہ عبادت الہی میں مصروف رکھے تاکہ منکرات کے قریب جانے کا کوئی احتمال ہی باقی نہ رہے۔ اکثر لوگ کھانا پینا ترک کرنے کو ہی روزہ کا مقصد سمجھتے ہیں اس لئے دوران رمضان اپنی وہ یومیہ مصروفیات بھی جاری رکھتے ہیں جو شرعی نقطئہ نظر سے کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دی جاسکتی ہیں۔ مگر دن بھر کی تکان ‘ بھوک پیاس برداشت کرنے اور بہت مقوی اور مرغن غذا نوش کرنے کے بعد دل تھوڑی تفریح اور آرام کا طلبگار ہوتا ہے اور بس پھر ہر وہ کام جائز سمجھا جاتا ہے جو تھکے ماندے روزہ دار کے آرام کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جہاں پرہیزگاری اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
امت کی آسانی اور سہولت کے لئے ہمارے نبی سرور کائینات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ان تمام اعمال صالح بجالانے اور منکرات اور مکروہات کی تفصیل مہیا کردی ہے جن کو دوران ماہ مبارک رمضان ہر مسلمان پابند رہ کر اس ماہ المبارک کا مقصد حاصل کرسکتا ہے۔ آںحضرت کا ارشاد ہے:
” پس تم اچھی نیت اور بری باتوں سے پاک دلوں کے ساتھ اس ماہ میں خدا سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس میں تلاوت قرآن پاک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ جو شخص اس بڑائی والے مہینے میں خدا کے طرف سے بخشش سے محروم رہ گیا وہ بدبخت اور بد انجام ہوگا۔ اس مہینے کی بھوک اور پیاس میں قیامت والی بھوک اور پیاس کا تصور کرو۔ اپنے فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ دو’ بوڑھوں کی تعظیم کرو’ چھوٹوں پر رحم کرو’ رشتہ داروں کے ساتھ نرمی و مہربانی کرو۔ اپنی زبانوں کو ان باتوں سے بچاو جو نہیں کہنی چاہئے۔ جن چیزوں کا دیکھنا حلال نہیں ان سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھو۔ جن چیزوں کو سننا تمہارے لئے روا نہیں ہے ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو۔ دوسرے لوگوں کے یتیم بچوں پر رحم کرو تاکہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم بچوں پر رحم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرو۔ خدا کی طرف رخ کرو۔ نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھاو کہ بہترین اوقات ہیں جن میں حق تعالی اپنے بندوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے۔ اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہیں وہ ان کو جواب دیتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہیں ان کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔ اے لوگو اس میں شک نہیں کہ تمہاری جانیں گروی پڑی ہیں تم خدا سے مغفرت طلب کرکے ان کو چھڑوانے کی کوشش کرو۔ تمہاری کمریں گناہوں کے بوجھ سے دبئی ہوئی ہیں۔ تم زیادہ سجدے کرکے ان کا بوجھ ہلکا کردو۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی عزت و عظمت کی قسم کھا رکھی ہے کہ اس مہینے میں نمازیں پڑھنے اور سجدے کرنے والوں کو عذاب نہ دے اور قیامت میں ان کو جہنم کی آگ کا خوف نہ دلائے۔ اے لوگو جو شخص اس ماہ میں کسی مومن کا روزہ افطار کرائے تو اسے گناہوں کی بخشش اور ایک غلام کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔۔۔جو شخص اس مہینہ میں اپنے اخلاق درست کرلے تو حق تعالی قیامت میں اس کو پل صراط سے بآسانی گزار دیگا جب کہ لوگوں کے پاوں پھسل رہے ہونگے ۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام اور کنیز سے تھوڑی خدمت لے تو قیامت میں خدا کا حساب سہولت کے ساتھ لے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کسی یتیم کی عزت اور مہربانی کی نظر سے دیکھے تو قیامت میں خدا اس کو حرمت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے رشتہ داروں سے نیکی و قربت کا برتاؤ کرے تو حق تعالی قیامت میں اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملائے رکھے گا اور جو کوئی اپنے قریبی عزیزوں سے بدسلوکی کرے تو خدا روز قیامت اسے اپنے سایہ رحمت سے کاٹے رکھے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں سنتی نمازیں بجا لائے تو خدا تعالی قیامت کے دن اسے دوزخ سے برائت نامہ عطا کرے گا۔ اور جو شخص اس ماہ میں اپنی واجب نمازیں ادا کرے تو حق تعالی اس کے اعمال کا پلڑا بھاری کردیگا۔جبکہ دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہونگے۔ جو شخص اس مہینہ میں قرآن کی ایک آیت پڑھے تو خداوند کریم اس کے لئے کسی اور مہینہ میں ختم قرآن کا ثواب لکھے گا۔ اے لوگو بے شک اس ماہ میں جنت کے دروازے کھلے ہوتے ہیں پس اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ انہیں تم پر بند نہ کرے۔ دوزخ کے دروازے اس مہینہ میں بند ہیں پس خدائے تعالی سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر نہ کھولے۔ اور شیطانوں کو اس مہینہ میں زنجیروں سے جکڑ دیا گیا ہے پس خدا سے سوال کرو کہ وہ انہیں تم پر مسلط نہ ہونے دے۔۔۔”
استقبال رمضان سے متعلق آںحضرت ص کے اس اہم اور مفصل خطبہ کا اگرخلاصہ کیا جائے تو ہر مسلمان دوران رمضان المبارک اپنے اعمال کو چند اہم عنوانات پر مرکوز کرتے ہوئے مقصد ماہ مبارک بخوبی حاصل کرسکتا ہے۔
اولا” اس ماہ مبارک کو اللہ تعالی نے ہمارے لئے استغفار اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرنے کا بہترین موقعہ عنایت فرمایا ہے پس ہمیں اس موقع کو ضائع نہ ہونے دینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں بہترین عمل ہر روز کم از کم ستر مرتبہ ” استغفراللّٰہ و اتوب الیہ ” کا ورد کرنا ہے۔ جیسا حضور ص نے فرمایا کی اس مہینہ میں زیادہ سجدے کرکے اپنے گناہوں کا بوجھ کم کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ع کا قول ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینہ میں نہیں بخشا گیا تو وہ آئندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا سوائے اس کے کہ وہ عرفہ میں حاضر ہوجائے۔
دوئم رمضان المبارک میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ہے کیونکہ اس مہینہ میں اللہ تعالی نے وہ بہترین اوقات مقرر کئے ہیں جب وہ لوگوں کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ سب سے اعلی دعا محمد و آل محمد ص پر درود بھیجنا ہے جس کے وسیلہ سے اپنی دیگر دعائیں مانگی جاسکتی ہیں۔
سوئم اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن کریم کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کا اس ماہ سے بہتر کوئی اور موقعہ نہیں مل سکتا جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضور ص نے فرمایا کہ اس ماہ مبارک میں ایک آیت کی تلاوت کرنے کا ثواب ایک مکمل قرآن پڑھنے کے ثواب کے برابر ہے۔ اکثر مقامات پر قرآن کریم کے دور کا اہتمام کیا جاتا ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
چہارم رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا بے انتہا اجروثواب کا باعث ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نیک کام بڑے پیمانہ پر انجام دینے کی استطاعت نہیں رکھتا تو مساجد اور مراکز میں کسی روزہ دار کو صرف پانی پلاکر بھی اس اجر و ثواب کا مستحق ہوسکتا ہے۔
ماہ مبارک رمضان کے فیوض و برکات سے پوری طرح مستفیض ہونے کے لئے ہمیں چاہئے کہ اوّل رمضان سے ہی جسمانی اور روحانی اعتبار سے اس عظیم عبادت کو انجام دینے کے لئے خود کو مستعد کرلیں۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ” جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں ‘ آنکھوں ‘ بدن کے رونگٹوں اور جلد اور دوسرے اعضاء کو بھی روزہ دار ہونا چاہئے یعنی ان کو حرام اور مکروہ چیزوں اور کاموں سے بچائے رکھو”