اوقاف کے تعلق سے ہندستانی مسلمان بالعموم اور بالخصوص حنفی سب سے زیادہ کنفیوزن کا شکار ہیں۔ ایک عام مسلمان وقف الاولاد، وقف اللخیر اور وقف اللہ تعلیٰ کے درمیان کا فرق نہیں جانتا۔ تدفین اور نماز کی ادائےگی کے شرعی احکام شاید حنفی فقہ میں پڑھائے ہی نہیں جاتے۔ شافعی اور جعفری فقہ اس سلسلے میں زیادہ صاف گوئی کے ساتھ شریعت کی وضاحت کرتی ہے۔ شریعت اور قانون دونوں کی نظر میں تمام قسم کےاوقاف یکساں نہیں ہیں۔ وقف کو دو طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ Waqf By Doner اورWaqf By Userیعنی عطیہ کرنے والے کی شرط کے مطابق یا استعمال کی وجہ سے۔
مثال کے طور پر کسی چبوترہ کو عطیہ کرتے ہوئے یہ شرط لگا دی گئی کہ اس پر تربوز فروخت ہونگے۔ اب اس چبوترے پر صرف تربوز ہی فروخت ہونگے مذہبی کاؤنٹر نہیں کھل سکتا۔ شرط کے خلاف وقف کا کوئی بھی دیگر استعمال حرام ہے۔ عطیہ دہندہ نے کہا کہ وقف الاولاد ہے اور میرے ورثا ہی اسکو استعمال کریں گے تو بقیہ دیگر مسلمانوں کے لئے اسکے ورثا کی اجازت کے بغیر استعمال حرام کھانے جیسا ہے۔ وقف میں گور غریباں کی شرط ہے تو پھر اس قبرستان میں امیروں کی تدفین جائز نہیں ہے۔ اس قبرستان میں غریب، غریب الوطن یا لا وارثوں کی میتیں ہی دفن ہونی چاہئیں۔ وقف اللخیر اگر ہے تو اسکا استعمال عوامی مفاد کے لئے ہوگا لیکن اسکی آمدنی پر غریب،غربا اور مساکین کا پہلا حق ہے۔ حالانکہ اسکول ،اسپتال وغیرہ سے کوئی اور بھی فیض یاب ہو سکتا ہے۔
وقف نامہ کی شرط میں اگر زمین پر اسکول درج ہے تو وہاں مسجد کی تعمیر تک جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ اسکول کا حصہ نہ ہو۔ یعنی اپنی مرضی سے وقف کا استعمال تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وقف الللہ یعنی مسجد ، کربلا یا درگاہ ہے تو اسکے اوپر اسکول کالج، یونیورسٹی قائم کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہاں اٖضافی زمین کے اس طرح کے استعمال کی اجازت وقف کنندہ نے نہیں دی ہو۔ یا پھر تمام استعمال کنندگان کی متفقہ رائے سے جگہ کا مارکٹ ریٹ پر کرایہ ادا کیا جائے۔ ایسی کتنی ہی شرطوں کو بڑے بڑے مولوی نظر انداز کر جاتے ہیں۔ اسکا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں میں بھگتنا پڑٹا ہے۔ ایسے بہت سے اوقاف ہیں جنکی اربوں کی زمین کوڑیوں کے مول کرایہ یا مفت میں دوسروں کے قبضے میں ہے۔
عدالتی مقدموں میں الگ اسکا سوال ہوتا ہے۔چونکہ آپ خود ہی وقف کی شرطوں میں ہیرا پھیری کرتے ہیں تو ناجائز قبضے کی صورت میں آپ اپنا دعویٰ ثابت نہیں کرپاتے کہ یہ زمین فلاں استعمال کے لئے ہے۔ ایک وقف معاملے میں سپریم کورٹ نے اسی ہیرا پھیری کو بنیاد بنا لیا۔ متولیوں نے وقف کی زمین کاشتکاری کے لئے کرایہ پر دیدی۔ قبضہ ہونے کی صورت میں معاملہ عدالت پہونچا تو عدالت نے کہہ دیا کہ وقف کے پاس غیر ضروری اور اضافی زمین تھی۔ اسی لئے دوسرے مذہب کے شخص کو کرایہ پر دی گئی۔ چونکہ اب اس سے لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہے اور وقف کو زمین کی ضرورت نہیں اس لئے اسے خالی کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے بے شمار معاملے ہیں کہ قبرستانوں میں بلا اجازت لوگ دفن ہیں اور قیامت میں انہیں غاصب ہونے کا حساب دینا ہوگا۔غلط طریقے سے وقف پر قابض ہیں یا پھر دیگر استعمال کے لئے وقف زمین پر نماز پڑھ رہے ہیں تو اسکے لئے ثواب ملےگا یا کچھ اور یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔( تحریر ضیغم مرتضیٰ)