ہندوستان میں حقوق انسانی کی صورتحال کے تعلق سے عالمی سطح پر جو مسلسل تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ اسے بھلے ہی ملک کا داخلی معاملہ قرار دے کر رد کر دیا جائے،لیکن اس کے باوجود جو سامنے کے حقائق ہیں ان کو کس طرح جھٹلایا جائے۔زباں بندی کی جو کوششیں حکمرانوں کی طرف سے کی جا رہی ہیں انکا ایماندارانہ تجزیہ کسی بھی غیر جانبدار انسان کو بے چین کرنے کے لیے کافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی عالمی ادارہ یا تنظیم یا پھر کسی دوسرے ملک کی طرف سے ہمارے داخلی حالات پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو ہمارے پاس کوئی معقول اور مناسب جواب نہیں ہوتا۔امریکہ کے محکمہ خارجہ نے ہندوستان میں سن 2022میں حقوق انسانی کے تعلق سے جو رپورٹ حال ہی میں جاری کی ہے اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔اس رپورٹ میں جن معاملات کے حوالے سے ہندوستان میں حقوق انسانی کی صورتحال پر انگلی اٹھائی گئی ہے وہ محض قصہ کہانی یا فرضی معاملے نہیں ہیں،بلکہ ان کے پس پردہ حکومت کی آمرانہ پالیسیوں اور عوام کی آواز دبانے کی منشاء و کوشش کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
ملک کے ایک موقر انگریزی روزنامے کے مطابق گذشتہ پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی پریس بریفنگ میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے ایک حصّے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون ’یو اے پی اے‘کے استعمال پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں بی جے پی کی کئی ریاستی حکومتوں کے ذریعہ بلڈوزر کے استعمال اور ملزمان کی املاک کو منہدم کرنے پر بھی تنقید کی گئی ہے۔اخبارِ مذکور میں کہا گیا ہے کہ جب رپورٹ جاری کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کے متعلقہ افسر سے ہندوستان کے بارے میں سوال کیا گیا تو بتایا گیا کہ ہندوستان اور امریکہ پابندی کے ساتھ جمہوریت اور حقوق انسانی کی صورتحال پراعلیٰ سطحی بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ متعلقہ افسر ایرن ایم بارکلے کا یہ بھی کہنا تھا کہ،’ہم نے ہندوستان سے حقوق انسانی سے متعلق اپنے فرائض اور وعدوں کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوطی سے اصرار کرنا جاری رکھا ہےاور جاری رکھینگے۔’
مذکورہ افسر کا جواب اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کی طرف سے ہمارے یہاں حقوق انسانی کی پامالی پر مسلسل بات ہوتی رہی ہے بھلے ہی یہ بات دونوں میں سے کسی بھی حکومت کی طرف سے تفصیلی طور پر منظر عام پر نہ آئی ہو۔لیکن امریکی وزارت خارجہ کی سالانہ رپورٹ سے بہرحال یہ صاف ہے کہ ہندوستان پر صرف کئی عالمی اداروں کی طرف سے ہی اس بات کا دباؤ نہیں ہے کہ وہ حقوق انسانی اور شہری آزادی کے معاملوں میں ابتر ی پر توجہ دے،بلکہ امریکہ یا کچھ دوسرے ممالک بھی ہندوستانی جمہوریت کو لا حق خطرات کے تعلق سے فکر مند ہیں۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ہماری جمہوریت بہت سے ممالک کے لیے مشعل راہ کا کام کرتی رہی ہے۔دنیا کے کئی بڑے چھوٹے ممالک ایسے ہیں کہ جو ہماری قیادت سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر ہونے والی جمہوری،سماجی،اقتصادی یا دیگر طرح کی اصلاحات میں اپنا مثبت رول ادا کرے،لیکن اگر ہماری قیادت خود ملک کے داخلی معاملات میں ہی اس حد تک آمرانہ طرز عمل اختیار کر لے کہ جمہوریت کے لیے خطرہ لا حق ہو جائے تو پھر چھوٹے ممالک کے تعلق سے ہم کس طرح ’بڑے بھائی‘ کا رول ادا کر سکتے ہیں
ہندوستان کو ایک بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے جو رول عالمی معاملات میں ادا کرنا چاہیے اس کا تقاضہ ہے کہ پہلے ہم خود اپنے گھر کے حالات کو ایسا نہ ہونے دیں کہ جن پر عالمی برادری یا اداروں کو انگلی اٹھانے کا موقع مل جائے۔بد قسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے اس بات کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے،جبکہ دوسری طرف یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ بی جے پی کی قومی قیادت ملک کو ”وشوگرو“ بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں آمریت میں وشو گرو بننا ہے؟ کیا ہم اپنے شہریوں کے حقوق پامال کرکے دنیا کو ایک بہتر جمہوریت کا درس دے سکتے ہیں؟ کیا ہم چند صنعتی گھرانوں کے تجارتی اور کاروباری مفادات کو ملک کے معاشی اور اقتصادی مفادات پر ترجیح دے کر ہندوستان کو ایک بڑی معاشی طاقت اور دنیا کی رہنمائی کرنے والا ملک بنا سکتے ہیں؟ کیا مذہبی جنونیوں کو آزادی دے کر اور مظلوم شہریوں کی آواز دبا کر ملک کی ہمہ جہت ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے؟کیا اپنے مظالم پر پردہ ڈال کر اور ان کے لیے بے تکے جواز تلاش کرکے ہم دنیا کے مظلوموں کی مدد کر سکتے ہیں؟اور ایک پر امن دنیا کے قیام میں اپنا رول ادا کر سکتے ہیں،جبکہ ہم خود مرگھٹ کے سنّاٹے کو امن مان کر اپنی کمر تھپتھپانے کی احمقانہ نفسیات کے شکار ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی زیر بحث رپورٹ کے تعلق سے ہماری حکومت کیا کہتی ہے اس کا راقم کو علم نہیں ہے۔ذاتی طور پر میری رائے یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کو دوسرے ممالک کے داخلی معاملات پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔خصوصاً ہندوستان جیسے ممالک کے تعلق سے ایسے تبصرے عالمی سیاست پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں،لیکن اس کے باوجود حقائق سے آنکھیں چرانا یا انھیں داخلی معاملات میں دخل اندازی کہہ کر نظر انداز کر دینا خود ہماری جمہوریت اور عوام کے مفادات کے خلاف ہے اور اس سے ہر حکومت کو بچنا چاہیے۔
رپورٹ میں حقوق انسانی کی ابتر صورتحال کے لیے جن معاملات کو بنیاد بنایا گیا ہے ان میں سماجی کارکنوں اور کچھ صحافیوں کی گرفتاریوں،یو اے پی اے کے غلط استعمال،گرفتار افراد کی حراست کو مسلسل بڑھانے،گرفتار کیے گئے ملزمان کے گھروں کو بغیر کسی قانونی ضابطے کی تکمیل کے بلڈوزر سے زمیں دوز کرنے،ملزمان کی ضمانت کے معاملے میں عدالت کے انکار اور ایسے معاملوں میں ایجنسیوں کے ذریعہ ضمانت کی مخالفت جیسے کئی ایشوز کو شامل کیا گیا ہے۔رپورٹ میں ’مناسب مقدمے بازی سے گریز‘ سے متعلق رپورٹ کے ایک حصّے میں کہا گیا ہے کہ،’حکومت نے لوگوں کو ان کی رہائش گاہوں سے بے دخل کر دیا،ان کی املاک کو ضبط کر لیایا مناسب ضابطے یا خاظر خواہ ہرجانہ ادا کیے بغیر گھروں پر بلڈوزر چلا دیا۔’یہ دعویٰ بھی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ سرکار نے ان ہتھکنڈوں کا استعمال مبینہ طور پر مسلم کمیونٹی سے آنے والے ناقدین حکومت کے خلاف خاص طور پر کیا،اور ان کے گھر و روزگار کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کی مثال کے طور پر الہ آباد یا یوگی کے پریاگ راج میں مسلمان سماجی کارکن جاوید احمد کے گھر کو ’الہ آبادڈیولپمنٹ اتھارٹی‘ کے ذریعہ توڑنے اور دلّی کے جہانگیر پوری میں ایک مکان کو منہدم کرنے سمیت کئی دیگر معاملوں کا بھی ذکر ہے۔لیکن یہاں رک کر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ایسے بیشتر معاملات میں سیکولرزم کی مدعی بیشتر اپوزیشن پارٹیوں کا رخ بھی قابل افسوس رہا۔ان پارٹیوں نے مظلومین کے حق میں شائد اس خوف سے آواز نہیں اٹھائی کہ کہیں فرقہ پرست انھیں ’ہندو مخالف‘قرار دیکر ان کے بچے کھچے ووٹ بنک کو بھی نقصان نہ پہنچائیں۔انٹرنیٹ پر حکومت مخالف موادپر پابندی کے معاملے کو بھی رپورٹ میں اٹھایا گیا ہے اور اس تعلق سے کئی سرکاری فیصلوں و پالیسیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔روہنگیا مسلم پناہ گزینوں کے تعلق سے حکومت کی پالیسی کو بھی رپورٹ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے۔جبراً تبدیلی مذہب جیسے قوانین اور دلت،پسماندہ و درج فہرست ذاتوں و قبائل کے تعلق سے سرکار کی پالیسیوں پر بھی رپورٹ میں جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور شائد تمام مہذب دنیا کی ہمارے ملک کے حالات پر کتنی گہری نظر ہے۔ظاہر ہے اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک اور جمہوریت سے دنیا یہ توقع کرتی ہے کہ ایک مثالی معاشرے کے قیام میں ہندوستان اہم رول ادا کر سکتا ہے۔جبکہ حکومت کی پالیسیوں نے دنیا کو مایوس کیا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mob:9811602330