qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

”وہ جس کو پڑھتا نہیں کوئی بولتے سب ہیں“۔تحریر سراج نقوی

اہل اردو کے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ اردو صحافت نے اپنا دو صدیوں کا تابناک اور کامیاب سفر مکمل کر لیا ہے۔اس مناسبت سے پورے برصغیر میں جشن اور مذاکروں کا سلسلہ جاری ہے۔اردو اخبارات کی جنگ آزادی اور اس کے بعدہندوستان کے جمہوری معاشرے کے لے پیش خدمات پراردو اور غیر اردو داں قلم کاروں کے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے،لیکن اس موقع پر اردو والوں کو اپنا محاسبہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔اس پر بھی غور وخوض کی ضرورت ہے کہ جنگ آزادی کے وقت پورے ملک کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی زبان آج کیوں صرف مسلمانوں کی زبان بنا دی گئی،اور کیوں خودمسلمان بھی اس سے دور ہو رہے ہیں۔اس صورتحال کا نتیجہ ہے کہ اردو اخبارات بے شمار مالی و دیگر مسائل سے دوچار ہیں،اور اردو بولنے والے غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی عدم توجہی کے سبب اردو کو شعوری یا لا شعوری طور پر نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ مشہور اردو شاعر
انورؔجلال پوری نے کہا تھا ؎
وہ جس کو پڑھتا نہیں کوئی بولتے سب ہیں…….جناب میرؔ بھی کیسی زبان چھوڑ گئے
مرحوم انورؔ جلال پوری.کے اس شعر کی سچائی کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ آج بھی پارلیمنٹ سے مختلف ریاستی اسمبلیوں تک اور ایک عام آدمی سے لیکر دانشوروں کی محفلوں تک آپ کو اردو کے اشعار پڑھنے اور نہایت شوق سے سننے والے ہر طبقے اور مذہب کے افراد مل جائینگے،لیکن جہاں تک اردو سیکھنے و پڑھنے والوں کا تعلق ہے تو ان میں سے محض چند فیصدی افراد ہی اردو جاننے یا پڑھنے والے ملینگے۔ظاہر ہے جب حالات یہ ہوں تو اردو صحافت کے سامنے بھی مسائل پیدا ہونگے اور اردو زبان کی بقا ء کی کوششیں بھی متاثر ہونگی۔المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو اردو کو مسلمانوں سے جوڑ کر اس زبان کو مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،اور دوسری طرف اردو کی طرفداری کے مدعی مسلمان بھی اردو سے اس حد تک دامن بچا رہے ہیں کہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اردو زبان میں ایوان کی رکنیت کا حلف لینے میں بھی عار یا پھر کسی سیاسی مصلحت کے تحت خوف محسوس کرتے ہیں۔اس کا خمیازہ اردو اور اس کی صحافت کو بھگتنا پڑ رہا ہے

ایم ایل اے عالم بدیع

اردو سے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی بے تعلقی کے حوالے سے اتر پردیش کی سماجوادی پارٹی کے بزرگ رکن اسمبلی عالم بدیع نے راقم کے ساتھ کچھ دن قبل ہوئی ٹیلی فونک گفتگو میں اپنا درد بیان کیا۔عالم بدیع ضلع اعظم گڑھ کی نظام آباد اسمبلی نشست سے پانچویں مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں،اور اپنے سادہ طرز زندگی کے سبب قومی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنے ہوئے ہیں۔ موصوف بتاتے ہیں کہ جب وہ 1992 میں پہلی بار رکن اسمبلی بنے اور اردو میں حلف لینا چاہا تو اسپیکر کیسری ناتھ ترپاٹھی نے یہ کہہ کر اردو میں حلف دلانے سے انکار کر دیا کہ اتر پردیش اسمبلی میں کبھی اردو میں حلف نہیں لیا گیا،اور حلف برداری قومی زبان ہندی میں ہی ہوگی۔لیکن عالم بدیع اردو میں حلف لینے پر بضد رہے اور اس بناء پر ایک سال تک ان کی حلف برداری نہیں ہوئی۔رکن اسمبلی کے طور پر انھیں اپنے ایک سال کے بھتّوں وغیرہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔بعد میں جب کلیان سنگھ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا تھا تو انھیں حالات کی مجبوری کے سبب اردو میں حلف لینے کی ضد چھوڑنی پڑی۔عالم بدیع کے مطابق جب 2018 میں وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے تو کیونکہ اس مرتبہ اسمبلی انتظامیہ نے اردو اور ہندی زبان کے حلف کے مضمون کو ایک ساتھ کر دیا تھا۔ایک سطر ہندی اور دوسری اردو میں تھی،لہذٰا انھیں اردو میں حلف لینے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔عالم بدیع کا درد یہ ہے کہ تازہ اسمبلی انتخابات کے بعد 34 مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے ہیں،لیکن ان میں سے صرف چار نے ہی اردو میں حلف لیا ہے۔کئی مسلم ممبران اسمبلی اردو جانتے تک نہیں۔یعنی اردو کی بے کسی کا حال یہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں اسے مسلمانوں کی زبان قرار دیتی ہیں،اور مسلمان اردو سیکھنے یا پڑھنے سے دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ اردو میڈیم کا مسئلہ ہو یا پھر اردو صحافت کا معاملہ اردو کو اپنوں ہی کے تغافل کی شکار ہے۔اردو سے مسلمانوں سمیت دیگر طبقات کی اس بے رخی نے کم از کم رسم الخط کی سطح پر اردو کی ترویج و اشاعت کے سفر کو متاثر کیا ہے۔حالانکہ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اپنے حسن اور کشش کے سبب آج بھی اردو نہ صرف مسلمانوں بلکہ تھوڑے بہت ہندوؤں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے۔شمالی ہندوستان میں اردو بھلے ہی اپنوں کی بیگانگی سہنے کے لیے مجبور ہو لیکن،پنجاب،تلنگانہ،مہاراشٹر،بنگال اور بہار و جھارکھنڈ کے کچھ علاقوں میں آج بھی کم ہی سہی لیکن اردو پڑھنے اور لکھنے والے مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی مل جائینگے۔

جہاں تک اردو صحافت کا تعلق ہے تو اس کا یہ پہلو اب بھی قابل ذکر ہے کہ آج بھی دو غیر مسلم صنعتی گھرانے اردو میں راشٹریہ سہارا اور انقلاب جیسے بڑے اخبارات شائع کر رہے ہیں۔ان اخبارات کے قارئین میں بھی ہندو اور مسلمان دونوں ہی شامل ہیں۔ہندوستان بھر کے اہم اردو مراکز میں آج بھی ایسے نوجوان مل جائینگے کہ جو اپنی تکنیکی تعلیم بھلے ہی ہندی یا انگریزی میں حاصل کر رہے ہیں لیکن اردو کی شیرینی اور جاذبیت نے انھیں اس حد تک متاثر کیا ہے کہ وہ اردو بھی سیکھ رہے ہیں۔راقم کی نظر سے دہلی میں مقیم ایک آزاد اردو صحافی روہنی سنگھ کا ایک مضمون اردو صحافت کے دو سو برس کے حوالے سے گزرا۔اس میں روہنی نے اردو سیکھنے اور اردو صحافت سے اپنی وابستگی پر فخر کیا ہے،لیکن اردو صحافیوں کے مسائل اور چند کوتاہیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اردو زبان اور اردو صحافت کے گرتے ہوئے معیار کے لیے اردو والے زیادہ ذمہ دار ہیں۔عالم بدیع نے مسلم سیاست دانوں کی اردو سے بے تعلقی کا جو شکوہ کیا وہ اس لیے زیادہ باعث فکر ہے کہ جب ہمارے رہنماؤں کی اردو دانی کا ہی یہ حال ہے تو کس طرح ہم اردو یا اردوصحافت کی ترقی کے لیے کوئی جامع منصوبہ بنا سکتے ہیں،اور اگر بنا بھی لیں تو اس پر کس طرح عمل ممکن ہے؟جب اردو والے ہی اس زبان کے معاملات کو ترجیح کے ساتھ اپنے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنائینگے تو پھر اردو دشمنوں کی کارگزاریوں پر واویلا کا کوئی مطلب نہیں۔یہ محض اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا ایک آسان راستہ ہے۔

یہ بات یقیناً قابل فخر ہے کہ اردو صحافت بیحد مشکل حالات میں بھی اپنا دو صدیوں کا سفر مکمل کر رہی ہے،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو صحافی کم پیسے اور وسائل کے باوجود اہل اردو کے مسائل اور ملک کے دبے کچلے لوگوں کے جذبات کی عکاسی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔لیکن اردو صحافت کو اب اس سے آگے سائینسی اور تکنیکی ترقی کے دور میں اپنے موضوعات،مشمولات،طرز فکر اور رپورٹنگ کے شعبے کو بھی دھار دینی ہوگی،تاکہ سماج کے حقیقی مسائل کی اسی طرح بہتر عکاسی کرکر سکے،جس طرح دوسری زبانوں کے صحافی کر رہے ہیں،اور یہ ذمہ داری اردو صحافیوں سے زیادہ اردو اخبارات کے ان مالکان پرعائد ہوتی ہے جو اردو کے چھوٹے یا اوسط درجے کے اخبارات نکال کر اپنی تجوریاں تو بھر رہے ہیں،لیکن اردو صحافت کے فروغ اور اردو صحافیوں کے مسائل کی جانب سے انکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اگر اردو صحافت سے وابستہ یہ طبقہ اردو زبان و صحافت کے مسائل کے تعلق سے سنجیدہ ہو جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔دوسری ذمہ داری ان اردو والوں پر عائد ہوتی ہے جو نئی نسل کو اردو پڑھانے یا سکھانے کے معاملے میں لاپرواہ ہیں۔ایسے لوگوں کو بھی اردو زبان و صحافت کے فروغ اور بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330

Related posts

مکتب سدرۃ المنتہیٰ کا اسٹوری ٹائم پروگرام

qaumikhabrein

امروہا۔ عزادروں نے امام سجاد کے غم میں گریہ و زاری اور سینہ زنی کی

qaumikhabrein

علی زیدی کے چیئرمین بننے پر نوگانواں سادات میں مٹھائی تقسیم

qaumikhabrein

Leave a Comment