
اتر پردیش کی یوگی سرکار اپنی بہتر کارکردگی کے خواہ کتنے ہی دعوے کرے لیکن ان دعووں کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف معاملات میں قانون کو بالائے طاق رکھنے،عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے اور کئی قوانین کا غلط استعمال کرنے کے لیے اس حکومت کو بار بار عدالتی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہے،اوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی حکومت کے بہت سے فیصلے قانون کے مطابق نہیں ہیں۔
تازہ معاملہ ’انسداد گو کشی قانون‘کے غلط استعمال کا ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ نے گو کشی کے ایک ملزم کو پیشگی ضمانت دیتے ہوئے ریاستی حکومت کی سخت الفاظ میں سرزنش کی ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ اس معاملے میں جانچ افسران نے غیر جانبدار جانچ نہیں کی۔عدالت نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ اس معاملے میں درج کی گئی ایف آئی آر صرف شک و شبہ کی بنیاد پر درج کی گئی ہے۔عدالت نے اس معاملے میں اتر پردیش حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ زیر بحث معاملے میں پولیس نے موقع سے کوئی بھی ممنوعہ جانور یا اس کا گوشت بر آمد نہیں کرنے کے باوجود چارج شیٹ داخل کر دی،جبکہ موقع سے صرف گوبر اور ایک رسّی ملی ہے۔عدالت اس حد تک ناراض تھی کہ اس نے جانچ افسروں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کا حکم بھی پولیس سربراہ کو دیا۔عدالت نے کہا کہ ”سرکار کا فرض غیر جانبدار جانچ کو یقینی بنانا ہے جو موجودہ معاملے میں نہیں کیا گیا۔”واضح رہے کہ اس معاملے میں ملزم نظام الدین کے خلاف ’یو پی انسداد گو کشی قانون‘کی دفعہ 3,5اور8کے تحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ 16اگست2022کو اس معاملے کے چار ملزمان نے ایک ملزم جمال کے گنّے کے کھیت میں ایک بچھڑے کو ذبح کر دیا۔پولیس کے مطابق موقع پر پہنچنے والے پہلے مخبر کو موقع سے ’ایک رسّی اور نیم ہضم شدہ گوبر‘ملا تھا،یہ دعویٰ بھی ایف آئی آر میں کیا گیا کہ کچھ گاؤں والوں نے ملزم کو ایک بچھڑے کو کھیت میں لے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔جانچ افسران نے گائے کے گوبر کو جانچ کے لیے فارینسک لیب میں بھی بھیجا تھا۔حالانکہ لیب والوں نے یہ کہتے ہوئے گوبر کی جانچ سے انکار کر دیا تھا کہ لیب میں گوبر کی جانچ نہیں ہوتی۔ان حقائق کی بنا پر ہی عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایف آئی آر صرف شک و شبہ کہ بنیاد پر درج کی گئی ہے۔عدالت نے ملزم کے صاف ستھرے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اسے پیشگی ضمانت دے دی۔

مذکورہ معاملے میں ملزم عدالت سے راحت پانے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن اس کے باوجود یہ معاملہ ریاستی حکومت کی قوانین کے غلط استعمال اور عدالتی ضابطوں کو نظر انداز کرنے کی غیر اعلانیہ کوششوں کا ثبوت ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب یوگی حکومت کو ریاستی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔حکومت جس طرح سے بلڈوزر کا اقلیتوں کے خلاف استعمال کرکے واہ واہی لوٹ رہی ہے،جس طرح اپنے خلاف ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے،جس طرح عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ریاستی پولیس معمولی معمولی باتوں پر ایف آئی آر درج کر رہی ہے اس نے ریاست میں قانون کے راج کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت کو عدالت کی نراضگی کا بار بار شکار ہونے کے سبب کئی معاملوں میں اپنے قدم مجبوری میں پیچھے کھینچنے پڑے ہیں۔
اکتوبر2019 میں مندروں کی انتظامیہ سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو پھٹکارتے ہوئے سوال کیا تھا کہ”کیا اتر پردیش میں جنگل راج ہے؟جو وہاں کے وکیلوں کو علم ہی نہیں ہے کہ کس اصول کے تحت کام کیا جا رہا ہے؟عدالت نے حکومت سے سوال کیا تھا کہ آخر وہ کس اصول کے تحت مندر اور اس کے اداروں کی نگراں ہے؟حالانکہ یہاں یہ بتانا بھی دلچسپ ہوگا کہ یوگی حکومت آج بھی ہندو مندروں اور تہواروں پر سرکاری خزانے سے پیسہ لٹا رہی ہے جو کسی بھی قانون کی رو سے درست نہیں ہے۔گذشتہ برس دسمبر میں بھی سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو غلط تفصیلات کے ساتھ اور تاخیر سے ایک اپیل دائر کرنے پر نہ صرف سخت ناراضگی ظاہر کی تھی بلکہ ایک لاکھ روپئے کا جرمانہ بھی لگایا تھا۔ایسا کوئی معاملہ اگر کسی اپوزیشن پارٹی کی حکومت والی ریاست کے ساتھ ہوتا تو شائد بی جے پی قیادت اس حکومت سے استعفیٰ کا ہی مطالبہ کرتی۔اسی طرح گذشتہ برس مئی میں ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے یہ تک کہا کہ،”جب تک توہین عدالت کا معاملہ شروع نہ کیا جائے تب تک عدالتی حکم کو نہ ماننا اس کی عادت بن گئی ہے۔”

یہ تبصرہ اپنے آپ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ریاستی حکومت کس طرح عدالت کے احکامات کو ہلکے طور پر لیتی ہے اور ان پر عمل سے گریز کی کوشش کرنے کی عادی ہو گئی ہے۔ سی اے اے قانون کے خلاف ریاستی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے جرمانہ وصولی کے نوٹسوں پر بھی عدالت نے یوگی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ نوٹس واپس نہیں لیتی تو عدالت خودیہ نوٹس رد کر دیگی۔ رواں سال کے شروع میں بھی سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کی اس بات کے لیے سرزنش کی کہ اس نے عدالتی احکامات کے باوجود کچھ قیدیوں کی قبل از وقت رہائی کے عدالتی حکم پر عمل در آمد کیوں نہیں کیا؟عدالت نے اس معاملے میں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے سوال کیا تھا کہ عدالتی احکام پر عمل نہ کرنے کے لیے اس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ ہیٹ کرائم یا منافرت پر مبنی تقاریر کے ایک معاملے کی سماعت کے دوران بھی سپریم کورٹ نے یوگی سرکار کے تئیں اس بات پر ناراضگی ظاہر کی کہ اس نے ڈیڑھ سال بعد اس معاملے میں ایف آئی آر درج کیوں کی؟حالانکہ یہ وہی سرکار ہے کہ جو اقلیتوں سے متعلق بیشتر معاملوں میں ملزمان کے خلاف تادیبی کارروائی میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ کرتی ہے کہ کسی عدالتی حکم یا قانونی اختیار نہ ہونے کے باوجود ملزمان کے مکانات کو بلڈوزر سے زمیں دوز کرکے اپنا سینہ ٹھونکتی ہے۔ظاہر ہے حکومت کے نزدیک اس کا حکم ہی قانون ہے اور وہ تعزیری معاملات میں کسی عدالتی ضابطے یا فیصلے کا انتظار نہیں کرتی،خواہ ایسا کرنے میں قانون کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑیں۔گذشتہ ماہ ہی ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کے ذریعہ کی گئی ایک اپیل پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ،”جرم بیحد سنگین اور پریشان کرنے والا ہے اور ریاستی حکومت کو اس طرح ایسے معاملے میں اپیل نہیں کرنی چاہیے۔معاملہ صرف یہاں پیش کیے گئے چند مقدمات کا ہی نہیں ہے بلکہ ریاستی حکومت کے ذریعہ عدالت کو نظر انداز کرنے کے اس رجحان کا ہے جو اتر پردیش سے لے کر مرکز تک کی بی جے پی حکومتوں میں یکساں طور پر دیکھنے میں آرہا ہے۔گو کشے معاملے کو بھی ریاستی حکومت کے اس رجحان کے تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔اس لیے کہ اس معاملے میں پولیس نے جو کارروائی کی اس کا مقصد بظاہر ریاستی حکومت سے تعریف حاصل کرنا اور گو کشی یا ایسے ہی دیگر قوانین کے غلط استعمال سے اقلیتوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں۔باعث تشویش بات یہ ہے کہ پولیس اور دیگر ایجنسیاں بھی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسی راہ پر چل پڑی ہیں۔
sirajnaqvi08@gmail.co Mob:-9811602330