پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے اگر کوئی پیغام دیا ہے تو اسے ایک جملے میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بھگوا پارٹی سے لڑنے کے لیے اسی جارحانہ انداز اور مضبوط’منصوبہ بندی‘کی ضرورت ہے کہ جس کے سہارے بی جے پی جیت کا سفر طے کر رہی ہے۔کسان یونین کے لیڈر کا ایک بیان انتخابی نتائج سے متعلق رجحانات کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔جس میں ٹکیت کہہ رہے ہیں کہ۔”جنتا نے تو ووٹ دیا نہیں ہے،یہ مشین کا ووٹ ہے۔دیش میں چناؤ بیلٹ سے ہونا چاہیے۔“ اگر ٹکیت کے اس الزام کو درست مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں اور عوام نے اس صورتحال کو بدلنے کے لیے کیا قدم اٹھائے،اور کیا بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر سطح پر اسی طرح کی منصوبہ بندی کی گئی کہ جس کی واقعی ضرورت تھی؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوا اور نتیجہ سامنے ہے۔یہ مان لینا تو قطعی نادانی ہوگی کہ عوام میں پہلے جیسی بی جے پی کی مقبولیت بر قرار ہے۔بھگوا پارٹی کو پانچ ریاستوں میں سے چار ریاستوں میں ملی سیٹوں کی تعدا د پرنہ جائیے۔ پنجاب کے تعلق سے بی جے پی نے پہلے ہی اپنی پوزیشن واضح کر دی تھی۔اس کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ سکھ اکثریت والی اس ریاست میں بی جے پی کے لیے وہ سب کچھ کر پانا شائد ممکن نہیں کہ جو دیگر ریاستوں میں وہ کر پا رہی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا نے بھی بی جے پی کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔اس کے باوجود بی جے پی نے خود ممتا کو اسمبلی الیکشن میں ہرانے میں کامیابی ضرور حاصل کر لی، لیکن اس کے بارے میں ممتا کا الزام ہے کہ بی جے پی نے سازش کرکے انھیں ہرایا۔ممتا نے اس ہار پر زیادہ ہنگامہ شائد ا لیے نہیں کیا کہ ریاست میں بی جے پی کو شکست دینے میں وہ بہرحال کامیاب ہو گئی تھیں اور اپنے جارحانہ رخ سے انھوں نے سنگھ کارکنوں اور بی جے پی ورکروں کے حوصلے پست کر دیے۔لیکن جہاں تک باقی چار ریاستوں کے اسمبلی نتائج اور خصوصاً اتر پردیش کے نتائج کا تعلق ہے تو یہاں تصویر شروع ہی سے بدلی ہوئی تھی۔یہ درست ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے انتخابی جلسوں میں بڑی تعدا دمیں عوام آرہے تھے،لیکن اس کے باوجود جہاں ایک طرف کانگریس کافی پیچھے رہ گئی، وہیں دوسری طرف سماجوادی پارٹی بھی عوام سے ملی حمایت کو جیت میں بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔اگر اس الزام کو درست مان لیا جائے کہ بی جے پی کی اس جیت کے پس پشت انتخابی دھاندلیوں کا بھی کوئی رول ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے روکنے کے لیے اپوزیشن اتنی دیر سے کیوں بیدار ہوئی کہ اس کا فائدہ اسے نہیں مل سکا۔
سماجوادی پارٹی نے اپنی کاکردگی میں بہت سدھار کیا ہے اور اس کے ووٹ بنک میں پہلے کے مقابلے میں کافی اضافہ ہوا ہے۔جب کہ دوسری طرف بی ایس پی امید سے بہت کم ووٹ حاصل کر پائی ہے۔ اسی لیے یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا دلت ووٹ بی ایس پی سے الگ ہو کر تقسیم ہو گیا یا پھر بی جے پی کو ایک خاص منصوبے کے تحت منتقل کر دیا گیا۔واضح رہے کہ انتخابی عمل کے دوران ہی امت شاہ نے کہا تھا کہ مایاوتی کا اثر ختم نہیں ہوا ہے اور بی ایس پی کو دلت ووٹ ملیگا۔امت شاہ کے اس بیان پر مایاوتی نے جب شاہ کا شکریہ ادا کیا اور ان کی ’حق گوئی‘ کی تعریف کی اسی وقت یہ سوال اٹھے تھے کہ کیا بی جے پی اور بی ایس پی میں کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے۔ایسا تھا یا نہیں یہ سوال اس وقت بے معنی ہے، لیکن کیا یہ بات حیران کرنے والی نہیں ہے کہ ایک طرف بی ایس پی کے ووٹ بنک میں کافی کمی آئی ہے تو دوسری طرف بی جے پی نے anti incumbancy factorکے باوجود اپنے ووٹ فیصد میں اضافہ کیا ہے۔تعجب کی بات بی جے پی کے ذریعہ اکثریت حاصل کرنا یا سماجوادی پارٹی کے ووٹ فیصد میں اضافہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ بی جے پی کو بڑھا ہوا ووٹ کہاں سے ملا؟ تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ کسانوں کی تمام تر ناراضگی جو دکھائی دیتی تھی اس کے باوجود بی جے پی نے کئی ان علاقوں میں بھی کامیابی حاصل کی کہ جہاں کسان ووٹروں کی بڑی تعداد ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن اپنے ووٹ بنک کو ای وی ایم مشین تک لانے یا پھر انتخابی بے ضابطگی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔اس کا ایک بڑا اور اہم سبب یہ بھی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں سے کسی کے پاس بھی آر ایس ایس جیسی کوئی تنظیم نہیں ہے جو حالات کو بدلنے کا مادہ رکھتی ہو۔
۔سنگھ نے بی جے پی کے لیے کیا کارنامے انجام دیئے یہ تو سنگھ کا کوئی کارکن ہی بہتر بتا سکتا ہے،لیکن دوسرے مرحلے کی پولنگ کے درمیان ہی جس طرح سنگھ سربراہ موہن بھاگوت نے ورچؤل میٹنگ کرکے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ بی جے پی کے ووٹروں کو پولنگ بوتھ تک لانے کے کام میں لگ جائیں،اس کا اثر انتخابی نتائج پر بہرحال پڑا۔سنگھ نے ناراض ووٹروں کو منانے کے لیے جنگی سطح پر کام کیا اور انھیں بی جے پی اور سنگھ کے بھگوا منصوبوں کا واسطہ دیا گیا۔ اس کی کچھ خبریں سوشل میڈیا پر بھی انتخابی مہم کے دوران سامنے آتی رہیں،لیکن شائد اپوزیشن اور خصوصاً سماجوادی پارٹی قیادت نے زمینی سطح پراور ووٹروں کے دروازے پر پہنچ کربی جے پی سے ان کی ناراضگی کو اپنے حق میں کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔بلکہ ریلیوں میں نظر آنے والی بڑی بھیڑ کو ہی کامیابی کی کلید مان لیا۔
انتخابی نتائج کے بے شمار پہلو ایسے ہیں کہ جن پر بہت جلد بازی میں اور فوری طور پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں۔جس وقت یہ مضمون تحریر کیا جا رہا ہے اس وقت بھی نتائج سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے،البتہ نتائج میں کسی ڈرامائی تبدیلی کا امکان اب نظر نہیں آتا۔لیکن ان نتائج کے پس پشت تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیے جو اہم پیغام ہے وہ یہ ہے کہ صرف عوامی رائے پر بھروسہ کرکے مستقبل میں ہونے والے کسی الیکشن میں نہ جائیں۔بلکہ خود کو تنظیمی سطح پر بھی مضبوط اور منظم کریں۔ہر پارٹی نوجوانوں کے لیے بنائے گئے سیل کو اور آئی ٹی سیل یا سوشل میڈیا سیل کو خاص طور پر مضبوط اور فعال کرے۔سب سے اہم بات یہ کہ بی جے پی کے خلاف انتخابی جنگ لڑنے کے لیے اسی جارحانہ تیور کو اپنانے کے لیے تیار رہے کہ جو بی جے پی بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگھ کے کارکنوں میں پائے جاتے ہیں۔بی جے پی جیسی پارٹی کو ان تیوروں کو اپنائے بغیر شکست نہیں دی جا سکتی۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330