qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

یو پی میں انتقامی سیاست کا کھیل شروع؟۔۔۔سراج نقوی

مغربی میڈیا میں بی جے پی کی حالیہ اسمبلی الیکشن میں جیت کے تعلق سے سوال اٹھے ہیں،لیکن اب بی بی سی نے کچھ اعداد وشمار کی بنیاد پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی کارکنوں پر تابڑ توڑ ایف آئی آر درج ہو رہی ہے؟:اگر بی بی سی کے نامہ نگار کے ذریعہ دیے گئے اعدا وشمار یکطرفہ نہیں ہیں،اور درست ہیں تو اسے جمہوریت میں انتقامی کارروائی یا سیاست کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتخابات کے بعد اکھیلیش یادو کی ہدایت پر جن پارٹی کارکنوں نے ’کاؤنٹنگ سینٹرس‘ اور ’اسٹرانگ روم‘ پر ای وی ایم کی گاڑیاں روک روک کر چیکنگ کی تھی یا دیگر سرگرم پارٹی کارکنان کے خلاف ریاست کے مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج کرائی جا رہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وارانسی میں ہی 640سیاسی کارکنوں کے خلاف مقامی انتظامیہ نے ایف آئی آر درج کرائی ہے۔خبر کے مطابق وارانسی کے تھانہ جیت پورہ میں پہاڑیہ منڈی واقع کاؤنٹنگ سینٹر میں رکھی گئی ای وی ایم کو جب ایک گاڑی لیکر جا رہی تھی تب اسے سماجوادی پارٹی کے کارکنوں نے گھیر لیا تھا،اور ای وی ایم بدلے جانے کا الزام لگایا تھا۔خود اکھیلیش یادو نے اس معاملے کو لیکر ایک پریس کانفرنس لکھنؤ میں کی تھی اور پارٹی کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ رائے شماری مراکز پر پہرہ دیں۔اس معاملے میں مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ رائے شماری کی ٹریننگ کے لیے یہ ای وی ایم لے جائی جا رہی تھیں۔اس معاملے میں انتظامیہ کو تمام امیدواروں کے سامنے دوبارہ ای وی ایم کی گنتی کرانی پڑی تھی۔اب اس معاملے میں جیت پورہ کے ایس ایچ او کی تحریر پر ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں چالیس افراد کو نامزد کیا گیا ہے،جبکہ ہانچ سو سے چھ سو نامعلوم افراد کو شامل کیا گیا ہے۔الزام ہے کہ ان لوگوں نے پولیس کے خلاف بیہودہ زبان کا استعمال کیااور اینٹ پتھر چلائے،اور لاٹھی ڈنڈے سے مارنے لگے،نیز سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔بہرحال ان تمام افراد کے خلاف تعزیری قوانین کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔حالانکہ ایف آئی آر میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ لوگ سماجوادی پارٹی کے کارکن تھے،لیکن خو و وارانسی سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر نے کہا ہے کہ اس معاملے میں ہمارے بھی کچھ کارکن شامل تھے۔پارٹی کے ضلع صدر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پولیس اہلکار بھی لاٹھی،اینٹ اور پتھر چلا رہے تھے۔

اسی طرح سہارنپور میں بھی سماجوادی پارٹی کاکنوں کے خلاف معاملہ درج کیا گیا ہے۔سہارنپور کے ایس پی سٹی نے اعتراف کیا ہے کہ سماجوادی پارٹی کے تین کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر دس سے بارہ لوگوں کو نا معلوم کے طور پر ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے۔یہا ں پر ان کارکنوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے وئیر ہاؤس میں چیکنگ کرنے پہنچے آبزرور کی گاڑی روک کر چیکنگ کی۔افسر سے بد تمیزی کی گئی اور سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالی گئی۔اس معاملے میں دستیاب ویڈیو کی بنیاد پر جن افراد کو نشان زد کیا گیا ان کے خلاف مہیا گواہی کی بنیاد پر کارروائی کی جا رہی ہے۔الزامات اور عائد کی گئی دفعات تقریباً وہی ہیں جیسی کہ وارنسی پولیس نے لگائی ہیں۔
تیسرا معاملہ گورکھپور کا ہے جہاں خبر کے مطابق 100 سے زیادہ مبینہ فسادیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔یہاں پر پولیس کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ای وی ایم کو لیکر گمراہ کن افواہیں پھیلائیں اور لوگوں کے جذبات کو مشتعل کیا،سرکاری کام کاج میں خلل ڈالا،لوگوں کے سامنے مسائل پیدا کیے ان کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔حالانکہ یہاں بھی پولیس نے اس سوال کا سیدھا جواب نہیں دیا کہ کیا ان میں کسی خاص پارٹی کے لوگ شامل ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ جو لوگ بھی کیمرے کی نظر میں آئے ہیں یا جنھیں سوشل میڈیا پر گمراہ کن خبریں پھیلاتے ہوئے پایا گیا ہے ان سب کے خلاف کارروائی کی جائیگی۔خواہ اس میں کوئی بھی ہو۔پولیس غیر جانبداری سے کام کرنے کی مدعی ہے تو اسے رد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے،لیکن ایک بات تو بہرحال صاف ہے کہ انتخابی دھاندلی یا گڑ بڑی کا اندیشہ اپوزیشن پارٹیوں خصوصاً سماجوادی پارٹی کو ہی زیادہ تھا۔اس لیے کہ بی جے پی کی سب سے مضبوط حریف وہی تھی۔اس لیے یہ بات بھی بڑی حد تک یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پولیس کا نشانہ بھی سماجوادی پارٹی کے ان کارکنوں کو ہی بنایا جائیگا،کہ جنھوں نے جان جوکھم میں ڈال کر انتخابی دھاندلی کو روکنے کی کوشش کی۔

اس کے علاوہ بستی،بلیا،ہاپوڑ اور آگرہ میں بھی سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمے درج ہونے کی خبریں ہیں۔بلیا کے ایس پی کا صاف طور پر الزام ہے کہ کاؤنٹنگ مراکز پر جو بھی سرکاری گاڑیاں جا رہی تھیں ان میں متعلقہ ریٹرننگ افسر اور دیگر اعلیٰ افسران تھے،ان کی گاڑیاں سماجوادی پارٹی کارکنوں کے ذریعہ غیر اخلاقی طور پر چیک کی جا رہی تھیں۔اس معاملے میں تھانہ بستی میں سات مقدمے درج ہوئے ہیں۔بستی کے ایس پی کا مذکورہ بیان مضحکہ خیز ہے۔اس لیے کہ انتخابی گڑبڑی ہوئی یا نہیں یہ الگ بحث کا موضوع ہے لیکن اپوزیشن یا خاص طور پر سماجوادی پارٹی کارکنوں کو یہی تو شک تھا کہ چند سرکاری افسران حکمراں جماعت کے حق میں ایسا کر سکتے ہیں۔کیا اس شک میں افسران کی گاڑیوں کو چیک کرنا قانوناً جرم ہے؟ البتہ اگر ان کارکنوں نے کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی حرکت کی تو ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے،لیکن پھر اس معاملے میں سب کے لیے ایک سا پیمانہ ہونا ضروری ہے اور حکمراں جماعت کے ایسے ہی کارکنوں پر بھی قانون کا شکنجہ کسا جانا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ حکمراں جماعت کے پاس اس بات کے مواقع بہرحال رہتے ہیں کہ وہ اپنے افسران پر دباؤ ڈال سکے،لیکن اپوزیشن پارٹیوں کو جمہوریت کی لڑائی لڑنے کے لیے اپنے کارکنوں کو ہی محاذ پر لگانا پڑتا ہے۔ایسے میں سماجوادی کارکنوں کے ذریعہ افسران کی گاڑی چیک کرنے کا عمل کس طرح قابل گرفت ہو سکتا ہے؟جن سات مقدمات کے بارے میں بتایا گیا وہ سب سرکاری افسران یا ملازمین کے ذریعہ درج کرائے گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی اپوزیشن پارٹی کارکن کے کہنے پر بھی کوئی مقدمہ حکمراں جماعت کے کارکن کے خلاف درج ہوا؟

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سات ایف آئی آر کی زبان تقریباً یکساں ہے،اور ان سب میں ملزمان کے خلاف سی ایل اے ایکٹ کے ساتھ تعزیرات ہند کی دفعہ 307جیسی خطرناک دفعہ بھی لگائی گئی ہے جو قتل کے ارادے سے کیے گئے حملے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور جس میں ضمانت بھی مشکل سے مل پاتی ہے۔ان مقدمات میں نصف درجن سے زیادہ لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے اور باقی سو سے زیادہ افراد کو نامعلوم کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔بستی سے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب رکن اسمبلی مہیندر ناتھ یادو کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کے چار ممبران اسمبلی بستی سے چن کر آئے ہیں اسی لیے یہاں پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات قائم کرکے انھیں پریشان اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔یادو نے کہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ بند نہیں ہوا توہم سڑکوں پر اتر کر اس کے خلاف لڑائی لڑینگے۔گاڑیاں روکنے کے تعلق سے یادو کا کہنا ہے کہ کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی گئی صرف گاڑیاں چیک کی گئیں۔اس لیے کہ یہ گاڑیاں انتخابی ضابطے کے خلاف عمل کر رہی تھیں۔مہندر سنگھ یادو کی طرح ہی آگرہ کے سماجوادی کارکنوں نے بھی الزامات انتظامیہ پر لگائے ہیں۔یہاں پر سماجوادی پارٹی اور آر ایل ڈی کے 24کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے۔ جبکہ 50 سے زیادہ نامعلوم لوگوں کو ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے۔یہی معالہ ہاپوڑ کا بھی ہے۔
یہ تمام معاملے بادی النظر میں انتظامیہ کی جانبداری کے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں ہیں حکمرانوں کی طرف سے ان افراد یا پارٹیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے کہ جنھوں
اپوزیشن کا ساتھ دیا۔انتظامیہ کی ان کارروائیوں سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت کی طرف سے انتقامی سیاست کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mob:09811602330

Related posts

ابو ظہبی میں غیر مسلموں کے لئے نئے ظابطوں کا اعلان۔

qaumikhabrein

ایرانی انقلاب کے رہنما آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ اب ہندی میں بھی

qaumikhabrein

امریکہ کی اقتصادی دہشتگردی کا نتیجہ۔افغانستان میں بچوں کی اموات میں اضافہ

qaumikhabrein

Leave a Comment