اتر پردیش کی نئی یوگی کابینہ میں واحد مسلم وزیر دانش آزاد کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو یوگی اور مودی کے ترقیاتی کاموں پر بھروسہ ہے،وہ بغیر کسی تفریق کے سرکاری منصوبوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور یہ کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز نہیں برتا جا رہا ہے۔اسی مفروضے کی بنیاد پر دانش یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ،”یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں۔“دانش کی رائے ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے وژن کی وجہ سے بی جے پی اور مسلمانوں کے درمیا ن دیوار گری ہے۔
حیرت ہے کہ دانش بی جے پی حکومتوں سے متعلق چند سامنے کے حقائق کے تئیں بھی آنکھ بند کیے ہوئے ہیں اور انھیں بھگوا پارٹی کی اقلیت مخالف پالیسیاں نظر نہیں آتیں۔اگر وزیر موصوف کے اس دعوے کو درست مان لیں کہ مودی اور یوگی کے دور اقتدار میں ان لیڈروں کے وژن کے سبب بی جے پی اور مسلمانوں کے درمیان دیوار گری ہے،تو سوال یہ ہے کہ کیوں بی جے پی نے ایک بھی مسلمان کو اسمبلی الیکشن میں اپنا امیدوار نہیں بنایا؟کیوں یوگی انتخابی ریلیوں میں 80 اور 20 فیصدی ووٹروں کے درمیان مقابلہ بتا کر ہندو ووٹروں کی صف بندی کرتے رہے۔کیوں یوگی کابینہ میں صرف دانش ہی واحد ہی مسلم وزیر ہیں،اور انھیں بھی ایسا وزیر مملکت بنایا گیا ہے کہ جس کے پاس آزادانہ چارج تک نہیں ہے۔بات صرف یہی نہیں ہے بلکہ نوکرشاہی میں مسلم افسران کو کلیدی سرکاری عہدوں سے کیوں دور رکھا جاتا ہے؟حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ سماجوادی،بی ایس پی یا کانگریس کے دور اقتدار میں بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب میں حکومت اور نوکرشاہی میں نمائیندگی حاصل نہیں تھی،لیکن اتنا ضرور تھا کہ اقلیتوں اور دلتوں میں بھگوا عناصر سے خوف و دہشت کا یہ ماحول نہیں تھا کہ جو اب ہے۔ کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے چند روز قبل ہی بھگوا تنظیموں سے وابستہ نوجوانوں پر درج فوجدار ی مقدمات کو واپس لے کر کیا پیغام دینے کی کوشش کی ہے؟حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو بہانہ بناکر جو رویہ حکومت اور انتظامیہ تمام با حجاب خواتین کے خلاف اختیار کر رہی ہے وہ کیاہے۔اتر پردیش میں جس طرح اپوزیشن سیاست کے مسلم چہروں کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیا گیا ہے،اس کے پیچھے کون سا وژن کام کر رہا ہے؟
وزیر موصوف کہتے ہیں کہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے،لیکن اگر یہ غلط فہمی ہے تو اتر پردیش اسمبلی الیکش میں بی جے پی کو صرف ۸ فیصدی مسلم ووٹ کیوں حاصل ہوا ہے،اور یہ اعداد وشمار بھی پوری طرح معتبر نہیں ہیں۔دوسری بات یہ کہ اس معاملے میں مقامی امیدواروں کی کارکردگی کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بی جے پی امیدوار نے اپنے طور پر اقلیتوں کے لیے کام کیا ہو،اور اس کی ذاتی طور پر شبییہ مسلمانوں میں بھی بہتر ہو،لیکن جہاں تک کسی پارٹی کی پالیسیوں اور ایجنڈے کا تعلق ہے تو اس معاملے میں نہ صرف مسلمان یا دلت بلکہ دیگر کئی طبقات بھی بی جے پی سے اتفاق نہیں رکھتے۔اس لیے یہ دعویٰ کہ مسلمان یا دیگر اقلیتی طبقات مودی اور یوگی کے وژن کے سبب بی جے پی کی طرف آرہے ہیں غلط ہے۔سب سے اہم بات تو یہ کہ بی جے پی قیادت کبھی کبھی صاف الفاظ میں اور کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں مسلمانوں سے اپنی دوری کی بات کہتی رہی ہے۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک موقع پر یہ اعتراف کیا تھا کہ مسلمان ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے۔اس لیے دانش آزاد بی جے پی اور مسلمانوں کے تعلق سے جو کہہ رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر بی جے پی قیادت اپنے عمل اور اپنے ایجنڈے کے ذریعہ ملک کی تمام مذہبی اقلیتوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ”سب کا ساتھ اور سب کا وکاس“ کا اس کا دعویٰ ایک زمینی حقیقت ہے تو ماحول بدل سکتا ہے۔لیکن سنگھ کے دیرینہ منصوبوں کو دیکھتے ہوئے اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت کے ذریعہ چلائی جا رہی فلاحی اسکیموں کا فائدہ مسلمانوں کو بھی مل رہا ہے تو یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے،لیکن پسماندگی کی آخری حد کو پہنچ چکے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف چند فلاحی اسکیموں کے سہارے ترقی کا سفر طے کرنا ممکن نہیں۔یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی اس پسماندگی میں سیکولرزم کی مدعی پارٹیوں کا بھی بڑا رول ہے،لیکن اگر بی جے پی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے ساتھ حکومت اور انتظامیہ کے رویے پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس دور میں بھگوا طاقتوں کے ذریعہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور انھیں حجاب،لو جہاد، اقتصادی جہاد،گھرواپسی،آبادی میں اضافہ جیسے بے شمار بے بنیاد موضوعات پر نشانہ بنانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔اکثریتی طبقے کی آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں کو مکان نہ دینے کے واقعات،مسلم پھیری والوں کو ایسے علاقوں میں نہ گھسنے دینے کی کوشش اور اسی نوعیت کے دیگر معاملات پر مقامی انتظامیہ کی جانبداری نے مسلم اقلیت کو مایوس کیا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ایسے معاملوں میں بی جے پی یا اس کی کسی حکومت یا انتظامیہ کا راست کوئی رول ہو۔لیکن ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ ہونے کے سبب عام مسلمانوں میں یہ پیغام بہرحال گیا ہے کہ بی جے پی حکومتیں ان کے آئینی اور قانونی حقوق غصب کرنے والوں کو شہ دے رہی ہیں۔اس صورت میں یہ دعویٰ بعید از قیاس ہے کہ مسلمان بی جے پی یا یوگی اور مودی کے وژن کے سبب اس پارٹی کی طرف آرہے ہیں۔
بات صرف مسلمان،دلت یا دیگر اقلیتوں کی ہی نہیں ہے بلکہ ایک خاص فکر کے ماننے والوں کی بات چھوڑ دیں تو سچائی یہ ہے کہ ملک کا عام شہری بی جے پی کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہے۔یہ الگ بات کہ اپوزیشن کے خیمے میں انتشار کے سبب یہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں،اور بی جے پی انگریزوں کی ”پھوٹ ڈالو اور راج کرو“ کی پالیسی پر چل کر یا دیگر ہتھکنڈے اپنا کر کامیابیاں حاصل کر رہی ہے،لیکن ان نتائج کو بی جے پی کی مقبولیت کے طور پر دیکھنا،یا مسلمانوں کے تعلق سے یہ غلط فہمی پھیلانا کہ وہ بی جے پی کی طرف راغب ہو رہے ہیں مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے کی بالواسطہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔جس پارٹی نے وزارتی کونسل کی تشکیل میں مختلف ہندو طبقات کی نمائیندگی کو بھی سامنے رکھ کر قلمدان تقسیم کیے ہوں اس پارٹی میں صر ف ایک مسلم وزیر مملکت ہونا اور اسے بھی آزادانہ طور پر کوئی قلم دان نہ دینا پارٹی کی نیت کو ثابت کرتا ہے۔دانش آزاد ایک وزارت لے کر اسے بی جے پی کی ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ کی پالیسی کے عملی نمونے کے طور پر پیش کر رہے ہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔سرکاری منصوبوں سے اگر چند مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے تو اسے بھی بی جے پی یا اس کی قیادت کے وژن سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔اس لیے کہ بنیادی مسئلہ مسلمانوں کی اجتماعی اقتصادی،تعلیمی،سماجی اور سیاسی ترقی کا ہے اور اس معاملے میں بی جے پی کا ریکارڈ خراب ہی نہیں بلکہ مایوس کن ہے، اور آئین میں دیے گئے اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے مترادف بھی۔ایسے میں مسلمانوں کا بی جے پی کی جانب رجحان بڑھناخود وزیر موصوف کی غلط فہمی ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330