
اتر پردیش اسمبلی الیکشن کے تعلق سے ایک بات تو بڑی حد تک صاف ہو گئی ہے کہ ماحول اور حالات کو دیکھتے ہوئے تمام اپوزیشن پارٹیاں بھی ہندوتو کی راہ پر چل کر ہی بی جے پی کو شکست دینے کی حکمت عملی بنا رہی ہیں۔ان پارٹیوں کو لگ رہا ہے کہ سیکولرزم اب کند سیاسی ہتھیار ہے جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔رہی بات مسلم ووٹوں کی تو گزشتہ سات برسوں میں بی جے پی نے ان کی ایسی درگت کر دی ہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں بی جے پی کو شکست دے سکنے والی کسی بھی پارٹی کے دامن میں پناہ لے لیں۔اسی لیے یہ بات تقریباً طے ہے کہ اتر پردیش کے مسلمانوں کا ووٹ پوری طرح کسی ایک اپوزیشن پارٹی کے حق میں نہیں جائیگا،بلکہ مقامی امیدوار اور حالات کے مطابق ہی اس کا فیصلہ ہوگا۔
جہاں تک مسلم قیادت والی پارٹیوں خصوصاً مجلس اتحاد المسلمین کا تعلق ہے تو بی جے پی نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کے ایک طبقے کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مجلس بی جے پی کی ایجنٹ ہے۔اس پروپگنڈے کا مقصد مسلمانوں کی آزادانہ قیادت ابھرنے کے کسی بھی امکان کو ختم کرنا ہے۔اپوزیشن پارٹیاں بھی اپنے نرم ہندوتو کے سبب ان پارٹیوں سے دامن بچا رہی ہیں۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یادووں کی بہار اور اتر پردیش میں اپنی سیاسی پارٹیاں ہیں۔دلتوں کی بھی اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں پارٹیاں ہیں اور ان پارٹیوں پر اپنی برادریوں کو آگے بڑھانے یا فرقہ پرستی کا الزام نہیں لگتا، لیکن جب کوئی مسلمان لیڈر اپنی پارٹی یا تنظیم کی بات کرتا ہے تو اسے فرقہ پرست کہہ کر مسلم قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کیونکہ اس کا فائد ہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو ملتا ہے،جو مسلم ووٹ کے سہارے اقتدار تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن حکومت بنانے کے بعد مسلمانوں کے جائز مطالبات اور بنیادی مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لیتی ہیں۔

بہرحال یہ ایک الگ اور تفصیلی بحث کا موضوع ہے،لیکن یہ بات بہرحال درست ہے کہ بی جے پی مخالف پارٹیاں بھی اتر پردیش الیکشن سے پہلے نرم ہندوتو کی راہ پر جا رہی ہیں۔کانگریس کی جنرل سکریٹری اور اتر پردیش معاملوں کی انچارج پرینکا گاندھی اس وقت پورے زور و شور سے انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔اس انتخابی مہم میں وہ مندروں میں جاکر یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بی جے پی کے ذریعہ کیا گیا یہ پروپگنڈہ غلط ہے کہ کانگریس ہندوؤں کی مخالف ہے۔لیکن دوسری طرف پرینکا نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ کانگریس مضبوطی سے سیکولرزم کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔اس لیے کہ کانگریس کو خوف ہے کہ اس کے اس موقف کو بی جے پی ’مسلمانوں کا تشٹی کرن‘ کہہ کر اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔حالانکہ پرینکا نے اتر پردیش اسمبلی الیکشن میں 50 فیصدٹکٹ خواتین کو دینے،مفت بجلی و پانی دینے یا 20 لاکھ سے زیادہ نوجوانوں کو روزگار دینے جیسے موضوعات کو بھی اپنی انتخابی مہم میں شامل کیا ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ یہ تاثر دینے میں بھی پیچھے نہیں ہیں کہ وہ ہندو بھی ہیں۔

یہ رویہ صرف کانگریس کا ہی نہیں ہے بلکہ ’تلک،ترازواور تلوار کے نعرے کے ساتھ اپنی سیاسی زمین تیار کرنے والی بی ایس پی بھی اسی راہ پر ہے۔مسلمانوں کو کنارے کرکے برہمنوں کو لبھانے کی پارٹی کی کوششیں اس کا ثبوت ہیں۔ایودھیا،کاشی اور متھرا کے معاملے میں بھی پارٹی کا موقف بدل گیا ہے۔شائد اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اب بی ایس پی کانشی رام کی بنائی اور مایاوتی کی کھڑی کی ہوئی پارٹی نہیں بلکہ اس کی کمان ستیش مشرا کے ہاتھوں میں ہے.

لمانوں کی مجبوری ہے۔اس احسا س نے سماجوادی پارٹی سربراہ کے نرم ہندوتو
کو توانائی بخشی ہے اور اب انھیں اس بات کی بھی فکر نہیں ہے کہ ان کی انتخابی ریلیوں کے اسٹیج پر مسلم نمائیندوں کو بھی مناسب جگہ ملنی چاہیے۔جناح سے متعلق دیے گئے بیان پر بی جے پی اور ہندو تنظیموں کے ہنگامے کے بعد اکھیلیش اب اپنی تقریروں کے تعلق سے بہت محطاط ہو گئے ہیں۔مختار انصاری کے ذریعہ پوروانچل کے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھی سماجوادی پارٹی نے راج بھر کا سہارا لیا ہے۔ لیکن ان تمام پارٹیوں نے ذات برادری کے موضوعات کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہے۔اکھیلیش یادو نے راج بھر کی پارٹی سے ہاتھ ملا کراس برادری کے ووٹوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے۔ دیگر برادریوں سے متعلق پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ لانے کے لیے اکھیلیش سرگرم ہیں۔چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں سے انتخابی اتحاد کرنے کی حکمت عملی دراصل اسی سوچ کا حصّہ ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی اس کے برعکس ذات برادریوں کی سیاست کو زیادہ آگے بڑھانے سے بچ رہی ہے۔اس لیے کہ ایسا کرنے میں اسے سیاسی نقصان کا خطرہ نظر آرہا ہے۔بی جے پی اپنے ممبران اسمبلی کے تئیں عوام کی ناراضگی سے بچنے کے لیے موجودہ ممبران اسمبلی میں سے ایک بڑی تعداد کو ٹکٹ نہ دیکر نئے چہرے اتارنے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے۔امت شاہ نے صاف کہا ہے کہ بی جے پی آئیندہ اسمبلی الیکشن میں ذات و برادری کے بجائے ملک اور ریاست کے موضوعات پر الیکشن لڑیگی۔حالانکہ بی جے پی کے دور اقتدار میں ملک اور ریاست کا جو حال ہوا ہے وہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ یوگی کی حکومت اشتہارات میں مسلسل دعویٰ کر رہی ہے،”سوچ ایماندار،کام دم دار“لیکن دونو ہی دعووں کی حقیقت سے اتر پردیش کے عوام بخوبی واقف ہیں اور کورونا سے مرنے والوں کی گنگامیں تیرتی ہوئی لاشوں کے دلخراش مناظر اب بھی عوام کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔بہرحال اتر پردیش کے انتخابی میدان میں بی جے پی قومی اور ریاستی موضوعات کو ہی اپنی مہم کا حصہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔’پارٹی جلد ہی ’وجے سنکلپ یاترا‘شروع کرنے والی ہے جو اتر پردیش کے الگ الگ مقامات سے نکلے گی۔اس میں کئی مرکزی وزراء بھی شامل ہونگے جو مرکز اور ریاستی حکومتوں کی مبینہ حصولیابیوں کو عوام کے سامنے رکھیں گے۔حالانکہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ عوام ا ن حقائق سے بخوبی واقف ہیں۔ راشٹرواد‘ تو سنگھ کا پرانا موضوع ہے اور اس کو بھی آگے رکھا جائیگا۔بلکہ سنگھ کے ایجنڈے کا بنیادی حصّہ یہ ’راشٹرواد‘ ہی ہے۔جو دراصل مخصوص ہندوتو کو ملک پر تھوپنے کی کوششوں کا ہی حصّہ ہے۔ذات برادری کے موضوع کو بی جے پی اس لیے بھی آگے نہیں بڑھانا چاہتی کہ اس میں کیشوپرساد موریہ جیسے لیڈر ریاست کی قیادت کا دعویٰ ٹھوک سکتے ہیں۔دیگر پسماندہ ذاتیں اور دلت بھی اپنی آبادی کے تناسب سے اپنا حصہ مانگ سکتے ہیں۔
ظاہرہے اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے بی جے پی کی پریشانی بڑھ جائے گی۔اس لیے کہ اتر پردیش میں اعلیٰ زات ہندو آبادی پسماندہ اور دلت ہندوؤں سے کم ہے۔جبکہ سب جانتے ہیں سنگھ کی ہدایات پر چلنے والی بی جے پی میں قیادت کا تصور اعلیٰ ذات ہندو سے ہی وابستہ ہے۔بی جے پی اور سنگھ کے اعلیٰ لیڈروں کی فہرست دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجائیگی۔بہرحال معاملہ یہ ہے کہ اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں اس مرتبہ جہاں ایک طرف اپوزیشن پارٹیاں نرم ہندوتو کے سہارے بی جے پی کے روائتی ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں تو دوسری طرف بی جے پی راست طور پر اپنے دیگر راوئتی موضوعات کی بجائے ’راشٹرواد‘ اور اپنی مرکزی و ریاستی حکومتوں کی مبینہ حصولیابیوں کے سہارے اتر پردیش کے اقتدار پر دوبارہ قابض ہونے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330