یہ کہنا تو مشکل ہے کہ بی جے پی اور بی ایس پی کے درمیان پس پردہ کوئی کھیل چل رہا ہے یا نہیں،لیکن جس طرح دونوں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت نے انتخابی عمل کے دوران ایک دوسرے کی تعریف کی اس سے یہ قیاس آرائیاں تیز ہو گئی ہیں کہ بی ایس پی الیکشن کے بعد بی جے پی کی پناہ میں جا سکتی ہے۔ ان قیاس آرائیوں سے بی ایس پی کو کوئی فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے لیکن بی جے پی کی مایوسی میں ضرور کمی آسکتی ہے۔کیونکہ اب تک کے انتخابی مرحلوں کے تعلق سے سامنے آنے والی غیر مصدقہ رپورٹوں نے بی جے پی اور سنگھ کو مایوس ہی کیا ہے۔
دراصل چند روز قبل ہی بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ نے ایک ٹی وی چینل کے انٹر ویو کے دوران کہا تھا کہ مایا وتی کاجواز ابھی ختم نہیں ہواہے۔ان کی پارٹی کو اتر پردیش میں ووٹ ملیگا۔حالانکہ اس کے ساتھ ہی امت شاہ نے اس سوال کاجواب دینے سے دامن بچالیا کہ بی ایس پی کو کتنی سیٹیں اس الیکشن میں ملینگی۔شاہ نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ کتنی سیٹیں بی ایس پی کوملیں گی، لیکن بی ایس پی کو ووٹ ملیگا۔اس لیے کہ مایاوتی کی زمین پر اپنی پکڑ ہے،اور جاٹو ووٹ بینک مایاوتی کے ساتھ جائیگا۔امت شاہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا تو ان کا جواب تھا کہ انھیں نہیں پتہ کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا یا نقصان،یہ اس سیٹ پرمنحصر ہے،لیکن یہ بہرحال سچ نہیں ہے کہ مایاوتی کا جواز ختم ہو چکا ہے۔امت شاہ نے اپنے اسی انٹر ویو میں یہ بھی کہا تھا کہ مایاوتی کومسلم ووٹ بھی ملیں گے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امت شاہ کے ایسے بیانات مصلحت سے خالی نہیں ہوتے۔یہ بھی جگ ظاہرہے کہ بیشتر ٹی وی چینلوں پر بی جے پی کے چند بڑے لیڈروں کے جو انٹرویو ہوتے ہیں ان میں سوالنامے کہاں سے آتے ہیں۔اسی لیے یہ ماننا مشکل ہے کہ بی ایس پی سپریمو کے تعلق سے کیا گیا سوال اچانک ہی اینکرنے پوچھ لیا ہو۔یہ سوال بی جے پی کے پالیسی سازوں کے لیے بے حد اہم ہے کہ مایاوتی اس الیکشن میں کہاں کھڑی ہیں اور ان کے جواز یا بے جواز ہونے کا بی جے پی کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ جب مودی نے گجرات میں اپنا آخری اسمبلی الیکشن لڑا تھا تو مایاوتی گجرات گئی تھیں۔مایاوتی کے بیانات اور ان کی اب تک کی حکمت عملی بھی اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے بی جے پی کے خلاف سیاسی حملے کرتے وقت بھی اس جاحانہ انداز کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا جس کے لیے انھیں جانا جاتا ہے۔اس کا سبب کیاہے یہ خود مایا وتی ہی بہتر بتا سکتی ہیں۔لیکن جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے اسے مایاوتی کے اس مزاج سے بہت سی امیدیں وابستہ ہو سکتی ہیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں کہ جب پارٹی کو اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی سے سختت چیلنج مل رہاہے۔
جہاں تک بی ایس پی کا یا مایاوتی کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنا جواز کھویا ہو یا نہ کھویا ہو لیکن ایک بات تو بہرحال واضح ہے کہ مایاوتی کی انتخابی مہم میں اس جوش و خروش کا فقدان ہے جو پہلے نظر آتا تھا۔بی ایس پی سپریمو ریلیاں بھی کم کر رہی ہیں اور انھوں نے پارٹی کو بڑی حدتک ستیش مشرا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ستیش مشرا پارٹی کو برہمن ووٹ دلانے کی کوششیں تو کر رہے ہیں،لیکن یہ کوششیں کس حد تک بار آورہونگی اس کاپتہ انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔البتہ امت شاہ نے مایاوتی کا جوازتسلیم کرتے ہوئے ان کی پارٹی کو جاٹو اور مسلم ووٹ ملنے کی ہی بات کہی ہے۔لیکن خود مایاوتی نے امت شاہ کے بیان پر ظاہرکیے گئے رد عمل میں دعویٰ کیا ہے کہ انھیں ہر طبقے کا ووٹ مل رہاہے۔لیکن مایاوتی کے بیان کی اہم بات یہ نہیں کہ انھیں کس طبقے کا ووٹ مل رہا ہے اور کس کا نہیں،بلکہ اس بیان کا اہم حصہ وہ ہے جس میں بی ایس پی سپریمو نے امت شاہ کے مذکورہ بیان کو ان کا بڑپن یا عظمت سے تعبیر کیاہے
۔چوتھے مرحلے کی پولنگ کے دوران جب بی ایس پی لیڈر سے امت شاہ کے بیان کے تعلق سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھاکہ،”میں سمجھتی ہوں کہ یہ ان کی عظمت ہے کہ انھوں نے سچائی کو قبول کیا ہے۔لیکن میں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ پورے اتر پردیش میں بی ایس پی کو صرف دلتوں اور مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ انتہائی پسماندہ اور اعلیٰ طبقات کے بھی ووٹ مل رہے ہیں۔مایاوتی کے اس بیان میں امت شاہ کے لیے جو نرم گوشہ نظر آتا ہے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔نہ تو امت شاہ کا بیان محض ایک حقیقت یا بقول مایاوتی سچائی کے اعتراف میں دیا گیاہے اور نہ ہی خود مایاوتی نے امت شاہ کی جس مبینہ عظمت کا اعتراف کیا ہے وہ بے مقصد ہے۔ان بیانات کے پس پشت پوشیدہ سیاسی مقاصد اور مستقبل کے سیاسی گٹھ جوڑ کے امکانات کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
حالانکہ سیاست میں کون کب کس طرف چلا جائے یہ کہنا مشکل ہے،لیکن اگر کوئی سیاسی پارٹی عوامی مفاد کے کسی خاص موضوع پر عوام کی حمایت حاصل کرتی ہے اور بعد میں محض اقتدار کے لالچ میں کسی مخالف نظریات والی پارٹی کے ساتھ چلی جاتی ہے تو یہ جمہوریت کی توہین ہی نہیں بلکہ ووٹروں کے ساتھ دھوکہ بھی ہے۔ ہر چند کہ یہ پہلے سے ہوتا رہا ہے لیکن بی جے پی کے دوراقتدار میں ووٹروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور برعکس ایجنڈے والی پارٹیوں کے ساتھ جانے کا سلسلہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھا ہے،اور اس میں تمام جمہوری اصولوں اور عوامی مفادات کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ بھی بڑھا ہے
ہریانہ میں بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑنے والی چوٹالہ کی پارٹی نے کس طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد اقتدار کے لالچ میں بی جے پی سے ہاتھ ملایا اسے یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کیا ہوا یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔گووا میں کس طرح عوامی فیصلے کا مذاق اڑا کر بی جے پی نے حکومت سازی کی یہ بھی سب کے علم میں ہے۔دیگر کئی ریاستوں میں بھی یہی کہانی دوہرائی گئی۔اسی لیے اگر اتر پردیش اسمبلی الیکشن کے دوران دیے گئے امت شاہ کے بیان اور اس پر مایاوتی کے رد عمل کو لے کر سیاسی قیاس آرائیاں تیز ہو گئی ہیں تو یہ باعث حیرت نہیں۔بلکہ یہ ہماری جمہوریت کا المیہ ہے کہ مختلف پارٹیوں کے لیڈران کے بیانات کو اس پس منظر میں دیکھا جانے لگا ہے۔خصوصاً بی ایس پی اور بی جے پی لیڈران کا ایک دوسرے کے تئیں نرم گوشہ ان قیاس آرائیوں کو تقویت بخشتا ہے۔البتہ انتخابی عمل کے دوران جس مرحلے پر یہ بیانات سامنے آئے ہیں ان کا بی ایس پی کو کوئی فائدہ ملنا مشکل ہی ہے۔بلکہ اس کے نتیجے میں مایاوتی کا دلت یا مسلمانوں کا ووٹ جو ان کی طرف مائل تھا،وہ بھی ان سے دور جا سکتا ہے اور اس کا خمیازہ ان کی پارٹی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔البتہ بی جے پی قیادت شائد اس خوش فہمی میں ہے کہ اس سے اسے بالواسطہ کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔لیکن ایسا ہوتا ہے یا نہیں اس کاپتہ انتخابی نتائج آنے کے بعد ہی ہوگا۔
sirajnqvi08@gmail.com Mobile:09811602330