ہر چند کہ ملک کی سیاست میں ذات اور برادری کافیکٹر ہمیشہ ہی اہم رول ادا کرتا رہا ہے،اور مختلف سیاسی پارٹیاں ٹکٹوں کی تقسیم سے لیکر وزارتی عہدوں تک کے معاملے میں اس فیکٹر کا سہارا لیکر اپنی سیاست چلاتی رہی ہیں،لیکن اب جبکہ بی جے پی نے ہندوتو کے نام پر سیاست کو مذہبی رنگ دینے کی پالیسی اختیار کی ہے تب بھی ایسا نہیں ہے کہ ذات،برادری کے نام پر ہونے والی سیاست میں کوئی کمی آ گئی ہو۔بی جے پی کا ہندوتو اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود اس پارٹی نے بھی ذات برادری کو سامنے رکھ کر ہی ٹکٹوں کی تقسیم سے لیکر اسٹار کمپینروں کی فہرست تیار کی ہے۔دیگر پارٹیوں کا معاملہ بھی اس سے الگ نہیں ہے۔
ایک ہندی اخبار نے چند روز قبل اس سلسلے میں جو رپورٹ شائع کی ہے وہ ہماری جمہوریت کا ایسا چہرہ پیش کرتی ہے جس میں عوامی مسائل اور امیدوراروں کی ذاتی لیاقت یا صلاحیت سے زیادہ ان کی ذات برادری سمیت ایسے تمام اسباب کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ جو کسی پارٹی کے لیے عارضی سیاسی فائدہ بھلے ہی پہنچا دیں لیکن اس سے جمہوریت کمزور ہو تی ہے۔۔بی جے پی کے ہندوتو پر تمام سیکولر نظریات کے حامل دانشور اور سیاست داں تنقید کرتے رہے ہیں اور یہ درست بھی ہے لیکن اگر آپ سیاسی پارٹیوں کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہو جائیگا کہ کوئی بھی پارٹی اپنے محدود سیاسی مفادات کے دائرے سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کر پاتی،اور اب بھی اتر پردیش اسمبلی الیکشن میں سیاست کا یہ منفی رجحان تمام سیاسی پارٹیوں میں نظر آتا ہے۔
مذکورہ اخبار کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف یہی نہیں کہ مختلف علاقوں میں ٹکٹوں کی تقسیم میں ذات برادری کے معاملے کو اہمیت دی گئی ہے بلکہ اسٹار کمپینروں کی جو فہرست سیاسی پارٹیوں نے جاری کی ہے اس میں بھی اس بات کو اہمیت دی گئی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کسی خاص علاقے میں ووٹروں کی اکثریت کی ذات برادری کے مطابق ہی وہاں اس برادری سے متعلق با اثر لیڈروں کو تشہیر کے لیے میدان میں اتارا جائے۔کہنے کی ضرورت نہیں ایسے ماحول میں کسی عوامی ایشو کی اہمیت پیچھے ہو جاتی ہے اور ووٹروں کے سامنے اپنی برادری یا مذہب کے لیڈر کو جتانے کا لالچ اکثر اوپر آجاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ منگل کے روز بی جے پی نے جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی سطح کی خاتون پہلوان ببیتا فوگاٹ کو جاٹ بیلٹ میں بلا کر ان کے ذریعہ جاٹ ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی۔واضح رہے کہ اس وقت جاٹ برادری بی جے پی سے کافی ناراض ہے۔اس کی وجہ کسان تحریک کے دوران بی جے پی حکومتوں کا کسانوں کے تئیں آمرانہ رویہ بتایا جاتا ہے۔اترپردیش کے کسانوں میں ایک بڑی تعداد جاٹ برادری سے تعلق رکھتی ہے۔اسی طرح مودی نگر میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے انتخابی مہم میں حصہ لیکر ٹھاکر ووٹوں کو بی جے پی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔دراصل ٹھاکر برادری بھی یوگی آدتیہ ناتھ کے طرز حکمرانی سے کچھ خوش نہیں ہے۔حالانکہ یوگی خود ٹھاکر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔دلت اور پسماندہ طبقات کے ووٹروں پر ڈورے ڈالنے کے لیے اسی طبقے کے لیڈروں کو میدان میں اتارا جا رہا ہے۔اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ خود پسماندہ طبقے سے آتے ہیں،لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ برادریاں بھی اس وقت بی جے پی سے ناراض نظر آتی ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ان طبقات کے سامنے اپنی اپنی برادری کے کسی امیدوار کو منتخب کرنے کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔بلکہ سچ یہ ہے کہ دیگر پارٹیوں نے بھی اکثر اسی پالیسی کے تحت اپنے امیدوار طے کیے ہیں اور کوشش کی ہے کہ اگر بی جے پی نے کسی خاص علاقے سے کسی خاص برادری کے شخص کو امیدوار بنایا ہے تو اسی برادری سے دوسری پارٹی بھی اپنا امیدوار میدان میں اتارے
۔البتہ ان میں سے کسی بھی پارٹی نے مسلم لیڈران کو بہت کم اہمیت دی ہے۔ویسے بی جے پی کی ہندوتو کی پالیسی سے خوفزدہ اپوزیشن پارٹیوں کی اس معاملے میں مجبوری کو سمجھا بھی جا سکتا ہے۔خود پرانے مسلم چہرے بھی اس الیکشن میں ووٹروں کے درمیان جانے سے گریز کر رہے ہیں۔سماجوادی پارٹی جسے مسلم ووٹروں سے بہت امیدیں ہیں اس نے بھی انتخابی مہم میں مسلم چہروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس پارٹی کے لیے کبھی بھی مسلم ووٹروں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔البتہ مسلمانوں کے درمیان سنّی شیعہ اختلافات کو ہوا دیکر کچھ مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس نے بھی اپنے ایک اہم مسلم چہرے کو انتخابی محاذ پر لگایا ہے۔سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ لوک دل مل کر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ایسے میں جاٹ ووٹوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے خود جینت چودھری انتخابی مہم کی کمان سنبھال رہے ہیں اور جاٹ اکثریت والے علاقوں میں تشہیر کا کام کر رہے ہیں۔جن علاقوں میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار ہیں اور وہاں جاٹ ووٹروں کی بھی بڑی تعدا دہے وہاں بھی جینت چودھری کو انتخابی تشہیر میں لگایا گیا ہے۔البتہ سماجوادی پارٹی اور اس سے بھی زیادہ بی ایس پی نے مسلمانوں کو ٹکٹ دے کر چونکایا ہے۔
دوسری طرف مجلس اتحاد المسلمین اور اس پارٹی کے محاذ میں شامل دیگر پارٹیاں بھی اپنے ووٹروں کو سامنے رکھ کر انتخابی حکمت عملی طے کرنے میں مصروف ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف اپوزیشن پارٹیوں کے مختلف اتحاد مسلم لیڈران کو انتخابی مہم سے دور رکھے ہوئے ہیں تو دوسری طرف مسلم ووٹروں کو اپنی طرف لانے کے لیے سماجوادی اور دیگر پارٹیوں کا اتحاد خود اکھیلیش کو میدان میں اتار رہا ہے۔یہ حکمت عملی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مسلمان کسی پارٹی یا امیدوار کوصرف اس کے مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے۔یہ الگ بات کہ اس کے باوجود سیکولرزم کی مدعی پارٹیوں نے مسلمانوں کو سوائے پر فریب وعدوں کے کچھ نہیں دیا اور یہ صورتحال اب بھی برقرار ہے۔کانگریس بھی اس معاملے میں دیگر پارٹیوں کی روش پر ہی چل رہی ہے۔پارٹی نے اتر پردیش میں گوجر ووٹوں کے لیے سچن پائلٹ کو آگے کیا ہے تو دوسری طرف غلام نبی آزاد کو مسلمانوں کی ذمہ داری غیر اعلانیہ طور پر سونپی گئی ہے۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ غلام نبی آزاد کو کبھی مسلم لیڈر کے طور پر مسلمانوں نے قبول نہیں کیا۔البتہ کانگریس میں خود پرینکا گاندھی نے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔حالانکہ کانگریس کو پرینکا کی اس محنت کا کتنا سلہ ملتا ہے یہ کہنا فی الحال مشکل ہے۔البتہ برہمن یا دیگر اعلیٰ ذات ہندو جو کانگریس سے ناراض ہو کر اور بی جے پی کے ہندوتو سے متاثر ہو کربی جے پی میں چلا گیا تھا اس کی اب بی جے پی سے ناراضگی کانگریس کو کہیں کہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے۔یہ اعلیٰ ذات طبقہ بھی بی جے پی سے اسی لیے ناراض ہے کہ ان کے مفادات کی تکمیل میں بھی بی جے پی ناکام رہی۔سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی ملک کے تمام طبقات کے مفادات کو نظر انداز کرکے صرف چند سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ بنی رہی اور اس صورتحال نے عوام سے بی جے پی کو دور کر دیا ہے۔اس کا اثر اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں نظر آسکتا ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ تمام ایشوز سے قطعہ نظر ذات برادری کا ایشو اب بھی انتخابات پر حاوی نظر آتا ہے اور اس کے سبب انتخابی رجحان کے تعلق سے یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330