
حال کے چند ماہ میں پیش آئے سیاسی واقعات نے ایک مرتبہ پھر عوام کے دل میں امید کی یہ شمع روشن کی ہے کہ بی جے پی کو عروج پر لے جانے والے ا س کے ’چانکیہ‘ کی پالیسیاں مسلسل ناکام ہو رہی ہیں، اور اب پارلیمانی الیکشن میں جیت حاصل کرنا پارٹی کے لیے اتنا آسان تو بہرحال نہیں جتنا کہ سن 2014اور سن2019کے انتخابات میں تھا۔جمعرات کے روز آئے سپریم کورٹ کے دو فیصلوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بی جے پی عوامی مقبولیت کی بنا پر نہیں بلکہ مرکز میں اقتدار کے سہارے ریاستوں پر اپنا قبضہ جمانے کا کھیل کھیل رہی ہے۔اس کھیل میں ایک طرف مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا رول تنازعہ کے گھیرے میں ہے تو دوسری طرف صدر جمہوریہ کے نمائیندے کے طورپر اپوزیشن کی ریاستوں میں مقرر کیے جانے والے گورنروں کی غیر آئینی سرگرمیاں بی جے پی کے اس سیاسی کھیل کو آگے بڑھا رہی ہیں،لیکن سپریم کورٹ نے جس انداز سے مہاراشٹر کے گورنر اور دلّی کے لیفٹننٹ گورنر
کے طریقہ کار پر انگلی اٹھائی ہے اس سے بی جے پی کے چانکیہ کی پول کھل گئی ہے،اور کرناٹک میں بی جے پی کے حال نے بھی ثابت کیا ہے کہ چانکیہ کے سیاسی داؤں اب الٹے پڑ رہے ہیں۔بی جے پی اور اس کی اعلیٰ قیادت جتنا جتنا عوام کو مشتعل کرنے اور اپنے مرکزی اقتدار کی دھونس پر ریاستوں کے عوام کو کٹھ پتلی بنانے کی کوشش کر رہی ہے اس کا اسے نقصان ہی ہو رہا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے جن ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہوئے ان میں سے ہماچل میں بی جے پی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ہر چند کہ اسے بی جے پی کے لیے کسی بڑے جھٹکے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا،لیکن یہی بات کرناٹک کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔کرناٹک میں عوام نے جس طرح بی جے پی کے تمام بڑے لیڈروں بشمول نریندر مودی کے تمام سیاسی حربوں کے باوجود بی جے پی کے تعلق سے بیزاری کا ظہار کیا وہ پارٹی اور اس کے پالیسی سازوں کے لیے ایک سبق ہے۔اسی طرح سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز مہاراشٹر کی شندے حکومت بنانے میں گورنر کے رول اور دلّی میں کیجریوال حکومت کے آئینی اختیارات کو غصب کرنے کی ایل جی کی کوششوں پر جس سخت لہجے میں تبصرے کیے ہیں وہ بی جے پی کے آمریت کے لیے تازیانہ عبرت سے کم نہیں۔حالانکہ عبرت حاصل کرنے کے لیے با ضمیر ہونا ضروری ہے۔بہرحال یہ موقع درس اخلاقیات کا نہیں۔بات کرتے ہیں سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلوں کی۔پہلے بات مہاراشٹر کے تعلق سے دئے سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلے کی کر لی جائے۔

دراصل سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کی سابقہ ادھو ٹھاکرے سرکار کے گرنے سے متعلق عرضیوں کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے۔اس فیصلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بنچ نے سابق گورنر کوشیاری جو اس وقت مہاراشٹر کے گورنر تھے،ان کے ذریعہ فلور ٹسٹ کرانے کے فیصلے کو،اور اسپیکر کے ذریعہ باغی شندے گروپ کے وہپ مقرر کرنے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔بنچ نے صاف طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ اس وقت کے گورنر اور اسپیکر نے قانون کے مطابق کارروائی نہیں کی۔حالانکہ عدالت نے ادھو ٹھاکرے حکومت کو بحال کرنے سے اس لیے گریز کیا کہ انھوں نے فلو رٹسٹ کا سامناکیے بغیر ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے باوجود بنچ کی سربراہی کر رہے چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے جو تبصرہ گورنر اور اسپیکر کے رول پر کیا وہ اہم بھی ہے اور مستقبل میں اس کے اثرات بھی ہماری سیاست پر نظر آئیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ،”نہ تو آئین اور نہ ہی قانون گورنر کو سیاسی دائرے میں داخل ہونے اور کسی پارٹی کے داخلی تنازعات میں کردار ادا کرنے کا حق دیتا ہے۔“چیف جسٹس نے صاف طور پر کہا کہ گورنر(کوشیاری)کے پاس موجود مواد سے اس نتیجے پر پہنچنے کا کوئی سبب نہیں تھا کہ باغی ممبران اسمبلی ٹھاکرے حکومت سے حمایت واپس لینا چاہتے ہیں،اور ٹھاکرے ایوان میں اکثریت سے محروم ہو چکے ہیں۔

سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت کے دوران اپنے ایک ابتدائی تبصرے میں بھی کہہ چکا ہے کہ گورنروں کو سیاست میں نہیں پڑنا چاہیے۔بہرحال صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی کے ذریعہ شیو سینا (ادھو ٹھاکرے)کا سیاسی قتل کرنے کے لیے بچھائے گئے گئے جال میں اب وہ خود پھنستی نظر آرہی ہے۔واضح رہے کہ بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ نے ٹھاکرے حکومت کے زوال کے بعد ٹھاکرے کو دھمکی بھرے انداز میں زمین پر لانے کا دعویٰ کیا تھا۔شیو سینا آئیندہ پارلیمانی اور اسمبلی الیکشن میں زمین پر آتی ہے یا مہاراشٹر کے عوام بی جے پی کو زمین دکھاتے ہیں یہ تو وقت بتائیگا،البتہ فی الحال سپریم کورٹ کے فیصلے سے ادھو ٹھاکرے کو حکومت بھلے ہی نہ ملی ہو لیکن یہ فیصلہ ان کی اخلاقی جیت کے مترادف ہے۔عدالت نے ٹھاکرے کے استعفے کا ذکر کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ کیونکہ ٹھاکرے نے اخلاقی بنیادوں پر اور فلور ٹسٹ کا سامنا کیے بغیر استعفیٰ دے دیا اس لیے وہ ادھو حکومت کو بحال نہیں کر سکتی،لیکن اس کے باوجود عدالت کا فیصلہ بی جے پی کی ’چانکیہ نیتی‘ کی شکست اور ادھو ٹھاکرے کی فتح ہے۔

بی جے پی کی اس پالیسی کی دوسری شکست دلّی کی کیجریوال حکومت کے تعلق سے دیا گیا فیصلہ ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ بی جے پی قیادت کیجریوال کے اختیارات کو روز اول سے ہی غصب کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔نجیب جنگ سے لیکر موجودہ ایل جی تک جتنے بھی لیفٹننٹ گورنر رہے ان سب نے جمہوری طور پر چنی ہوئی کیجریوال حکومت کے مشوروں کو بالائے طاق رکھ کر مرکزی حکومت کے اشاروں پر ہی کام کیا ہے۔ایل جی کبھی بھی ریاستی حکومت کی نوکر شاہی کو بلا کر انھیں راست طور پر احکامات صادر کرنے کے عادی ہو گئے تھے،اور اس طرح آئین کے تحت دلّی کے وزیر اعلیٰ کو حاصل اختیارات کو سلب کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ان کوششوں کے پس پشت بھی بی جے پی اور اس کے چانکیہ کا یہی جذبہ کام کر رہا تھا کہ اپوزیشن کے اقتدار والی کسی بھی ریاست کی حکومت کو کام نہ کرنے دیا جائے اور اقتدار پر گورنر یا ایل جی کے توسط سے بالواسطہ قبضہ کیا جائے۔ظاہر ہے اس صورتحال نے کیجریوال حکومت کے بہت سے فلاحی منصوبوں اور فیصلوں میں رکاوٹ کھڑی کر دی تھی۔مرکز یا یوں کہیں کہ ایل جی کے اس غیر آئینی عمل کے خلاف کیجریوال حکومت نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس معاملے میں بھی عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ بی جے پی کی سازشوں کی شکست ہے۔
دلی کے وزیر اعلیٰ اور ایل جی کے اختیارات کے معاملے کی سماعت بھی سپریم کورٹ کی ایک پانچ رکنی
آئین بنچ کر رہی تھی۔اس بنچ کی سربراہی بھی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کر رہے تھے۔بنچ نے اس معاملے پر فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا۔عدالت نے بہت واضح الفاظ میں کہا کہ دلّی سرکار میں برسرکار آئی اے ایس افسران پردلی کی منتخبہ حکومت کا ہی کنٹرول رہیگا،بھلے ہی ان کی تقرری ریاستی حکومت نے نہ کی ہو۔دراصل معاملہ یہ تھا کہ ایل جی نے غیر اعلانیہ طور پر ریاستی حکومت کے افسران کو راست طور پر احکامات دینے شروع کر دیے تھے۔اسی لیے عدالت نے صاف کہا کہ اگر جمہوری طور پر منتخب حکومت کو افسران پر کنٹرول کرنے کا حق نہیں دیا گیا تو حکومت کی جوابدہی طے کرنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔معاملہ یہ تھا کہ بی جے پی کے پالیسی ساز اس بات کو ہضم نہیں کر پارہے تھے کہ دلّی میں ان کی موجودگی کے باوجود منتخب ریاستی حکومت کا حکم چلے۔عدالت کے فیصلے نے مرکز یا اس کے نمائیندے ایل جی کی اس منشا پر پانی پھیر دیا ہے اور نظم و نسق،پولیس اور زمین سے متعلق معاملات کو چھوڑ کر دلی حکومت کو باقی معاملوں میں ایل جی کی بیجا مداخلت سے نجات دلا دی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے عوام میں یہی پیغام گیا ہے کہ بی جے پی اپنے علاوہ کسی کے وجود کو برداشت نہیں کر سکتی۔اس لیے عدالتوں کو ایسے معاملوں میں مداخلت کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے،اور یہ تاثر
بی جے پی کی ’چانکیہ نیتی‘ کے زوال کا آغاز ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330