اظہار رائے کی آزادی سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کے بعد سنائے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ نے تبصرہ کیا ہے کہ غیر معمولی معاملات کو چھوڑ کرعدالتوں کو کسی خبری مضمون کی اشاعت کے خلاف یکطرفہ فیصلہ یا حکم امتناعی جاری نہیں کرنا چاہیے۔یہ فیصلہ میڈیا کو حاصل اظہار ِ رائے کی آزادی کے تعلق سے خصوصاً اس لیے ز یادہ اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ حکومت غیر جانبدار میڈیا کی آواز کو دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہی ہے۔حکومت کی اس آمریت کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہی ایک غیر معمولی اصطلاح وجود میں آئی ہے،جسے گودی میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔دراصل مودی حکومت جس کا انحصار ہی بڑی حد تک باطل پروپگنڈے پر ہے اس کے لیے میڈیا کی آزادی بڑا خطرہ ہے،لیکن اس معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ عدالتوں نے بھی کسی لالچ،دباؤ یا دوسرے اسباب سے میڈیا کی آزادی کے خلاف کئی ایسے فیصلے سنائے ہیں جو حکومت کی آمریت اورمیڈیا کی آواز پر قدغن لگانے کی اس کی کوششوں میں مددگار بنے ہیں۔زیر تبصرہ معاملے کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔
دراصل معاملہ بلوم برگ میں زی انٹرٹینمنٹ کے خلاف شائع ایک مضمون سے متعلق ہے۔یہ مضمون بلوم برگ نامی میگزین نے گزشتہ 21فروری کو زی انٹر ٹینمنٹ کے خلاف شائع کیاتھا۔ مضمون میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’سیکورٹی اینڈ ایکس چنج بورڈ‘(سیبی)نے زی انٹر ٹینمنٹ کے کھاتوں میں 241ملین ڈالر کی گڑبڑیاں پائیں۔حالانکہ ’سیبی‘ کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا۔مضمون کی اشاعت کے بعد کمپنی نے بلوم برگ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف ضلع عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا،اور کہا کہ اس نے ’سیبی‘ کے آرڈر کے بغیر ایک فرضی اور غلط رپورٹ شائع کی۔ زی انٹر ٹینمنٹ کے دائر کردہ اس معاملے میں 28فروری کوضلع عدالت نے سماعت کرتے ہوئے بلوم برگ کو حکم دیا کہ وہ ہتک عزت کا سبب بننے والے مذکورہ متنازعہ مضمون کوایک ہفتے کے اندر ہٹائے۔ ضلع عدالت کے اس فیصلے کے خلاف بلوم برگ نے دلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا،لیکن رواں مارچ کی 14تاریخ کو ہائی کورٹ نے بھی نچلی عدالت کے فیصلے کو درست ٹھہراتے ہوئے بلوم برگ سے مذکورہ مضمون ہٹانے کے لیے کہا۔بلوم برگ نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی،جس پر سنائے گئے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بلوم برگ کو راحت دیتے ہوئے مضمون کی اشاعت پر لگی روک کو ہٹا دیا۔سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ٹرائل کورٹ سے فیصلہ سنانے میں غلطی ہوئی،اور اسے ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ سماعت شروع ہونے کے پہلے مرحلے میں ہی کسی بھی آرٹیکل پر روک لگانا بحث کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔بہ الفاظ دگر عدالتوں کو غیر معمولی معاملوں کو چھوڑ کر دوسرے فریق کو سنے بغیر روک کا حکم جاری نہیں کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ نے اختلاف رائے کے حق کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ،”ہر تنقید جرم نہیں ہوتی ہے،اور اگر ہر تنقید کو جرم کے زمرے میں رکھا جائیگا تو جمہوریت زندہ نہیں رہ سکتی۔عدالت نے کہا کہ غیر معمولی معاملوں کو چھوڑ کر عدالتوں کو کسی نیوز آرٹیکل کی اشاعت کے خلاف یک طرفہ حکم امتناعی جاری نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ اس سے قلم کار(صحافی) کی اظہار رائے کی آزادی اور عوام کا جاننے کا حق سنگین طور پر متاثر ہوتا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہتک عزت کے مقدموں میں عبوری حکم امتناعی جاری کرتے وقت آزادی تقریر اور عوامی حصے داری پر روک جیسے پہلوؤں پر بھی غور کیا جانا چاہیے
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر دیے گئے اپنے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کے خلاف جو تبصرے کیے ہیں وہ بھی کافی اہم ہیں، اور اس بات کا ثبوت بھی کہ عدالت عالیہ شہریوں کے بنیادی حقوق خصوصاً اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے معاملوں کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے۔لیکن موجودہ حکمراں اور ان کا حاشیہ بردار میڈیا اپنے خلاف کوئی چھوٹے سے چھوٹا تبصرہ بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔زیر بحث معاملے کے جس پہلو کی طرف سپریم کورٹ نے اشارہ کیا وہ یہی ہے کہ ایسے معاملوں کو یکطرفہ طور پر انصاف کی ترازو میں رکھ کر فیصلے سنانے سے عدلیہ کو گریز کرنا چاہیے اور فریقین کواپنی اپنی بات کہنے کاموقع دینا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اس طرح کا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ جس میں حکومت یا اس کی چاپلوسی کرنے والے درباری میڈیا کے خلاف لب کشائی کی روایت دم توڑ رہی ہے۔نہ تو حکمراں طبقہ اپنے خلاف کچھ سننا پسند کرتا اور نہ ہی درباری میڈیا کو خود پر تنقید گوارہ ہے۔حکومت نے جس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو اپنے اقتدار کے سہارے،اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ اور دیگرطریقوں سے دبانے کی کوششیں کی ہیں انھیں دوہرانے کی یہاں ضرورت نہیں۔لیکن یہ بات بہرحال باعث تشویش ہے کہ حکومت کی ان کوششوں میں سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ہماری عدالت کا ایک حصہ بھی شامل نظر آتاہے۔انصاف کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انصاف صرف کیا ہی نہیں جانا چاہیے بلکہ نظر بھی آنا چاہیے۔یعنی متاثرہ فریق کو یہ محسوس بھی ہو کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جا رہا ہے۔لیکن بد قسمتی سے حال کے چند برسوں میں ایسے بے شمار فیصلے آئے ہیں کہ جن سے یہ عوامی تاثر پیدا ہوا ہے کہ کچھ عدالتیں بھی حکومت کے ایجنڈے کو سامنے رکھ کر فیصلے سنا رہی ہیں۔ہر چند کہ اس حقیقت کے باوجود اب بھی عوام کو عدلیہ پر بھروسہ ہے اور وہ حکومت یا اس کی ایجنسیوں کے ذریعہ ستائے جانے پر عدالت کی طرف ہی پر امید نظروں سے دیکھتا ے،لیکن ایسے معاملے بھی کم نہیں کہ جن میں انصاف کے معیاروں اور کسوٹیوں کو نظر انداز کرکے فیصلے دئے جا رہے ہیں۔بھلے ہی ان فیصلوں سے آئین کی روح مجروح ہوتی ہو۔
زیر بحث معاملہ حالانکہ حکومت یا اس کی ایجنسی سے متعلق نہیں ہے،لیکن اسے حکومت کے کچھ فیصلوں اور ان پر سنائے عدالتی فیصلوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اس لیے کہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی حکومت کی کوششیں سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے اپنے خلاف تبصروں،رپورٹوں اور رائے کو ہٹانے کی کوششوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔حکومت کے ذریعہ فیس بک،ٹویٹر (موجودہ ایکس) سمیت دیگر پلیٹ فارموں پر حکومت مخالف مواد کو ہٹوانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔کئی معاملات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عدالتیں اپنا ہتمی فیصلہ سنانے سے قبل ہی ایسے تبصرے متعلقہ معاملے پر کر دیتی ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ جانبداری سے کام لیا جا رہا ہے۔کسی بھی معاملے میں فیصلہ آنے سے پہلے اس طرح کا تاثر پیدا ہونا انصاف کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے۔زیر بحث معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ،”ٹرائل جج کی غلطی کو ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔حکم میں صرف یہ کہنا کہ”حکم امتناعی کے لیے بادی النظر میں معاملہ بنتا ہے۔“ کافی نہیں ہے۔اس سے پلڑا عرضی گزار کے حق میں جھکتا ہے۔اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا،کیونکہ معاملے میں دماغ کا استعمال نہیں کیا گیا۔“ سپریم کورٹ کے فیصلے میں استعمال کی گئی زبان بتا رہی ہے کہ عدالت ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کے تعلق سے سرسری رویے کو انصاف کے تقاضوں کے خلاف مانتی ہے۔سپریم کورٹ کے اس تعلق سے کیے گئے تبصرے ہمارے آئین اور قانون کی روح کے عین مطابق ہیں،جو ہمیں ایک دائرے میں رہتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کی جمہوریت میں اہمیت کو واضح کرتے ہیں،لیکن زیر بحث معاملے میں اس بنیادی نکتے کو ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں نظر انداز کر دیا گیا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330