کولکاتہ کے نواح میں ایک جھونپڑ بستی میں رہنے والی ساٹھ سالہ سلطانہ بیگم کا دعویٰ ہیکہ وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی وارث ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا ہیکہ ایک زمانہ میں مغلوں کی رہائش گاہ رہنے ولا لال قلعہ انکے حوالے کیا جائے۔ سلطانہ بیگم خود کو بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے مرزا محمد بیدار بخت کی اہلیہ بتاتی ہیں۔ بیدار بخت سے انکی شادی کا نکاح نامہ انکے پاس محفوظ ہے۔ بیدار بخت کی موت1980 میں ہو چکی ہے۔ سلطانہ بیگم گشتہ دس برس سے خود کو شاہی درجہ دیئے جانے اور اسکے حساب سے سلوک کئے جانے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔
۔سلطانہ بیگم کا سوال ہیکہ کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہیکہ جس شہنشاہ نے تاج محل تعمیر کرایا اسکے ورثا غربت اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔سلطانہ بیگم نے اس سلسلے میں عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے کہ انہیں سترہویں صدی میں تعمیر شدہ لال قلعہ کی اصل حقدار تسلیم کیا جائے۔سلطانہ بیگم کو امید ہیکہ انہیں انصاف ملےگا۔سلطانہ بیگم کو کچھ افراد کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انکا دعویٰ یہ بات ثابت ہونے پرمنحصر ہیکہ انکا سلسلہ نسب بہادر شاہ ظفر سے جاکر ملتا ہے یا نہیں۔
آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تاجپوشی 1837 میں ہوئی تھی اس وقت مغل سلطنت دہلی کی حدود تک محدود تھی۔ بقیہ ملک پر برطانیہ کی ایسٹ اینڈیا کمپنی کا قبضہ تھا۔1857میں ملک کی پہلی جنگ آزادی کے دوران جنگ آذادی کے سپاہیوں نے بہادر شاہ ظفر کو اپنا لیڈر قرار دیا تھا۔ برطانوی فوجیوں نےایک ماہ کے اندر اس جنگ آزادی کو بے دردی کے ساتھ کچل دیا تھا اور دہلی کا محاصرہ کرلیا تھا۔ لال قلعہ پر قبضے کے بعد برطانوی فوج نے شاہی خاندان کو گرفتار کرلیا تھا۔ اس دوران بہاد شاہ کے دس بیٹے مارے گئے تھے، بہادر شاہ کو گرفتار کرکے میانمار بھیج دیا گیا تھا۔انہوں نے اپنی زندگ کے آخری پانچ برس نہایت غربت اور افلاس میں گزارے۔
سلطانہ بیگم لال قلعہ پر حکومت کے قبضے کو ناجائز بتاتی ہیں۔ انکا کہنا ہیکہ یہ املاک انہیں لوٹائی جائے۔گزشتہ ہفتے دہلی ہائی کورٹ نے وقت کا زیاں کی بات کہتے ہوئےانکی عرضی مسترد کردی تھی ۔عدالت نے اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ سلطانہ بیگم حقیقی شاہی وارث ہیں۔بلکہ عدالت نے یہ کہا کہ سلطانہ بیگم کے وکلا یہ بات ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ بہادر شاہ کی جلا وطنی کے 150 برس کے بعد انکے ورثا نے اس قسم کا کوئی مقدہ کیوں نہیں دائر کیا۔سلطانہ بیگم کے وکیل وویک مورے کہتے ہیں کہ مقدمہ بازی جاری رہےگی۔انہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو اعلیٰ بینچ کے سامنے لیجانے کا فیصلہ کیا ہے۔سلطانہ بیگم بیوہ ہونے سے پہلے بھی بہت خراب حالت میں زنگی گزار رہی تھیں۔
بیدار بخت نے سلطانہ سے 1965 میں شادی کی تھی اس وقت سلطانہ کی عمر محض 14 برس تھی اور بیدار بخت ان سے 32 برس بڑے تھے۔ وہ لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر قسمت کا حال بتاتے تھے۔ سلطانہ بیگم ایک زمانے میں چائے کی دوکان چلاتی تھیں لیکن سڑک چوڑی کرنے کے پلان میں انکی دوکان منہدم کردی گئی۔ سلطانہ بیگم کا گزارہ حکومت کی جانب سے ملنے والی 6,000 روپئے ماہانہ کی پنشن پر ہے۔سلطانہ بیگم کو امید ہیکہ ایک نہ ایک دن حکومت انکے مرتبے کو تسلیم کرے گی اور انکے ساتھ شاہی وارثوں جیسا سلوک کیا جائےگا۔