اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں پر حکمرانوں کے ذریعہ روا کر دیے گئے تشدد کے خلاف ملک کے غیر مسلموں اور خصوصاً ہندوؤں کے دانشور اور امن پسند طبقے نے سب سے زیادہ اور موثر طریقے سے آواز احتجاج بلند کی ہے۔حالانکہ حکمرانوں نے مسلمانوں کے حق میں اٹھنے والی ان آوازوں کو کبھی قابل سماعت نہیں سمجھا۔نتیجہ یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور ملزم آزاد ہیں۔دادری کے اخلاق سے لے کر راجستھان کے پہلو خان تک ہجومی تشدد کا شکار ہونے والوں کی ایک طویل فہرست ہے،لیکن ’ہندوؤں کو خطرے‘ میں بتا کر اپنی سیاست کی روٹیاں سینکنے والی کسی تنظیم نے ان واقعات پر کبھی لب کشائی کا حوصلہ نہیں دکھایا۔ایسے میں ان معاملوں میں کسی مسلم لیڈر کی آواز پر حکومت یا انتظامیہ کے ذریعہ کان دھرنے کی امید کرنا ہی لاحاصل ہے۔لیکن اس کے باوجود ملک کے مسلمانوں نے ہرظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے معاملے میں پوری غیر جانب
داری اور تفریق مذہب و مسلک کو پس پشت ڈال کر ظلم کا شکار ہونے والوں کے حق میں جس طرح آواز اٹھائی وہ قابل تعریف ہے۔اس کی تازہ ترین مثال راجستھان میں ایک درزی کنہیا لال کا چند تشدد پسندوں کے ذریعہ اس بنا پر کیا گیا قتل ہے کہ مقتول درزی نے نوپور شرما کے حق میں کوئی پوسٹ سوشل میڈیا پر ڈالی تھی۔قتل کرنے والے دونوں ہی ملزم نام سے مسلمان ہیں۔لیکن ان کا تعلق بی جے پی کے میڈیا سیل سے بتایا گیا ہے۔
مذکورہ بہیمانہ قتل کے بعد پورے ملک میں بجا طور پر قاتلوں کے خلاف غم و غصہ دیکھا گیا،اور ہر طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے۔ان مطالبہ کرنے والوں میں مسلمانوں کی تقریباً تمام مذہبی وسماجی تنظیمیں شامل ہیں۔انفرادی سطح پر بھی تقریباً ہر اہم مسلم لیڈر نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیااور قاتلوں کے عمل کو اسلام کے خلاف قرار دیا،لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ شدت پسند بھگوا تنظیموں نے ملک بھر کے مسلمانوں کے اس موقف کا پا س ولحاظ کیے بغیر ان کے خلاف نہ صرف زہر افشانی میں اضافہ کردیا بلکہ کھلے عام انھیں قتل کیے جانے کے مطالبے بھی کیے جا رہے ہیں۔ملک کے کئی حصوں میں بھگوا تنظیموں کے مظاہروں میں لگائے گئے زہریلے نعرے اس کا ثبوت ہیں۔لیکن زبیر خان کو دو فرقوں میں نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کرنے والے ان نعروں کے معاملے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔یہ خاموشی فرقہ پرست عناصر کو شہ دینے کے مترادف ہے۔بلکہ ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ افرازل جیسے کئی معاملوں میں بھگوا تنظیموں نے قاتلوں کو ہندوتو کا ہیر و بنا کر پیش کیا اوراور ان کی مالی و دیگر ہر قسم کی مدد بھی کی۔ لیکن کنہیا کے قاتل کے تعلق سے کسی مسلمان نے اس غلط اور مذموم روایت پر عمل نہیں کیا۔
کنھیا لا ل کے قتل کے معاملے میں پہلا مظاہرہ ہریانہ کے گڑ گاؤں میں گذشتہ ماہ کے اوخر میں ہوا تھا جس میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کی طرف سے ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا۔اس ریلی میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔اس میں ‘دیش کے غداروں کو گولی مارو……کو’ جیسے نعرے بھی شامل تھے۔۔حالانکہ ہریانہ پولیس نے اس معاملے میں فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا خصوصاً یو ٹیوب پر پوسٹ کی گئی ریلی کی ویڈیو کی بنیاد پر از خود کارروائی کرتے ہوئے ایک ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔یہ الگ بات کہ اس معاملے میں ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی خبر نہیں ہے۔ہریانہ میں ہی ایک پنچایت میں مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل بھی کی گئی۔ملک کے دوسر ے حصوں میں اس طرح کے مظاہرے ہوئے ہیں،جن میں کنہیا کے قاتلوں کے بہانے عام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مدھیہ پردیش ان فرقہ وارانہ مظاہروں کے معاملے میں شائد سرفہرست ہے کہ اس کے کئی شہروں میں ایسے مظاہرے ہونے کی خبریں ہیں۔ہ اہم بات یہ کہ ان مظاہروں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کھلے عام اپیل کی گئی،لیکن یہ اپیلیں کرنے والے ابھی تک پولیس کی گرفت سے آزاد ہیں۔یہ وہی مدھیہ پردیش ہے کہ جہا ں کچھ دن پہلے کھرگون شہر میں کئی مسلمانوں کے گھروں پر اس الزام میں بلڈوزر چلا دیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر کچھ مسلمانوں نے ہندوؤں کے ایک جلوس پر پتھراؤ کیا تھا۔وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان بھی اچانک جس طرح کی زہریلی زبان کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کی گئی ہے۔لیکن ادے پور میں کنہیا کے قتل کے بعد جس طرح پورے مدھیہ پردیش میں فرقہ پرست طاقتیں سرگرم ہوئی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس معاملے کو بہانہ بنا کر ریاست کی فرقہ پرست طاقتوں کو عام اور بے قصور مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیا جا رہا ہے۔’دی وائر‘کی ایک خبر کے مطابق ریاست میں اس سلسلے کی تقریباً 100 ریلیاں منعقد ہوئی ہیں۔ان میں اشتعال انگیز نعرے لگائے اور تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔ان ریلیوں کے لیے بھگوا تنظیموں نے باقاعدہ ایک ایڈوائزری جاری کی تھی۔حالانکہ ایک وی ایچ پی لیڈر کا دعویٰ ہے کہ یہ ریلیاں اور مظاہرے پر امن تھے،اور صرف قتل کی مذمت کرنے کے لیے ان کا انعقاد کیا گیا تھا۔لیکن ان مظاہروں اور ریلیوں سے متعلق جو ویڈیو منظر عام پر آئی ہیں وہ مذکورہ دعوے کی نفی کرتی ہیں۔مثلاً ضلع ساگر میں مظاہرین نے نعرہ لگایا کہ،’جب…کاٹے جائنگے تو رام رام چلائینگے’۔یہ بھی کہا گیا کہ ‘ساگر کے ہندو اتنے کمزور نہیں ہیں کہ ایک ہندو کی موت کا بدلہ نہ لے سکیں۔’لیکن ایسا کہنے والے عناصر کے خلاف پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔حالانکہ چار لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر ضرور درج کی گئی۔کھنڈوا میں نعرے لگائے گئے کہ،’جہادیوں کی قبر کھدیگی،کھنڈوا کی دھرتی پر’اندور میں تو حد ہی ہو گئی اور یہاں بجرنگ دل کے ایک لیڈرنے باقاعدہ دھمکی دی کہ اقلیتوں کو سبق سکھانے کے لیے 2002 دوہرایا جا سکتا ہے۔مذکورہ لیڈر نے نوپور شرما کے بیان کو بھی درست ٹھہرایا۔اس نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں کے لیے بدلا لینے اور سڑکوں پر اترنے کا وقت آگیا۔ضلع منڈلا میں ’سر کاٹ کر انتقام لینے‘کی دھمکی دی گئی۔دیگر کئی اضلاع میں بھی ایسے ہی مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا جن میں کھلے عام دھمکی بھری زبان استعمال کرکے ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ہرچند کہ ان مظاہروں اور ریلیوں کے بعد پولیس نے کئی مقامات پر ایف آئی آر درج کی،لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا جب کہ اس معاملے کو اب تقریباً ایک ہفتے کا عرصہ گزر چکا ہے۔کیا یہ مانا جائے کہ ریاستی حکومت کے حکم پر ملزمان کے خلاف سخت کارروائی سے گریز کیا جا رہا ہے؟اگر ایسا نہیں ہے اور حکومت اس معاملے میں ایماندار ہے تو پھر خاطی پولیس افسران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔لیکن ایسا نہیں ہو رہا،اور نفرت کا کاروبار کرنے والے یا ان کی کھلے عام حمایت کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔جبکہ زبیر جیسے صحافی کو اس الزام میں گرفتار کیا گیاہے کہ انھوں نے چار سال پہلے دو فرقوں کے درمیا ن نفرت پیدا کرنے والا ایک ٹویٹ کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بات کی شکایت کرنے والا غائب ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کا تعلق مبینہ طور پر بی جے پی سے ہے۔بات صرف زبیر کی ہی نہیں ہے بلکہ حکمراں جماعت کے خلاف آواز بلند کرنے اور فرقہ پرست عناصر کی اشتعال انگیزیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کئی صحافیوں کو پولیس نے نشانہ بنایا ہے۔چند روز قبل نئی دلی کے پریس کلب میں کئی صحافی تنظیموں کی ایک میٹنگ میں اس صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے صحافی برادری نے صاف کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں پریس کی آزادی کوبری طرح متاثر کرینگی،لیکن یہ بات طے ہے کہ سرکردہ صحافی تنظیموں کے تاثرات نقّار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہونگے۔