qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

اترپردیش اسمبلی الیکشن اور کانگریس۔۔سراج نقوی

اتر پردیش اسمبلی الیکشن میں اب صرف چند ماہ بچے ہیں۔اسی لیے مختلف پارٹیوں کی انتخابی سرگرمیاں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس توتقریباً ایک سال سے اپنی انتخابی حکمت عملی تیار کرنے اور الیکشن کے موقع پر مختلف ذمہ داریاں سنبھالنے والوں کی فہرست طے کرنے میں مصروف ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ اور اتر پردیش بی جے پی یونٹ ہی نہیں بلکہ پارٹی کی مرکزی قیادت اور خود وزیر اعظم نریندر مودی،امت شاہ اور پارٹی صدر جے پی نڈّا مسلسل اتر پردیش کے دورے کر رہے ہیں۔حالانکہ پارٹی کے صدر اس وقت جے پی نڈّا ہی ہیں لیکن انتخابی حکمت عملی طے کرنے کی کمان مودی کے نور نظر امت شاہ کے ہی پاس ہے۔اس کا سبب بھی ظاہر ہے کہ اگر اتر پردیش کا اقتدار بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا تو 2024 کے پارلیمانی الیکشن میں اس کی واپسی مشکل ہو جائیگی۔

حکمراں بی جے پی کے بعد سب سے زیادہ فعالیت سماجوادی پارٹی کے خیمے میں ہے۔ایک طرف پارٹی میں دیگر پارٹیوں کے باغیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف پارٹی صدر اکھیلیش یادو کئی چھوٹی اور علاقائی سطح کی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کر چکے ہیں اور اس حکمت عملی کے سہارے بی جے پی کو روکنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف بی ایس پی خیمے میں اب پہلے جیسا جوش نظر نہیں آتا اور بظاہر جو حالات ہیں انھیں دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ بی ایس پی انتخابی مہم کے معاملے میں دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے کافی پیچھے ہے۔حتیٰ کہ عآم آدمی پارٹی بھی بی ایس پی کے مقابلے میں زیادہ فعال نظر آتی ہے۔اس پارٹی کی سماجوادی پارٹی سے انتخابی اتحاد کے لیے بات چیت ہونے کی بھی خبر ہے۔ان تمام پارٹیوں کے درمیا ن کانگریس وہ واحد پارٹی ہے کہ جس کا نہ ابھی تک کسی پارٹی سے انتخابی اتحاد ہوا ہے اور نہ ہی پارٹی نے اس کا کوئی اشارہ دیا ہے۔اس تعلق سے اب تک آنے والی خبریں بڑی حد تک افواہ ہی ہیں۔ اپنے دم پر الیکشن لڑنے کی کانگریس کی حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے۔اس کا نقصان بھی پارٹی کو اٹھانا پڑا ہے،لیکن جہاں تک اتر پردیش کا تعلق ہے تو یہاں گذشتہ پارلیمانی الیکن کے موقع پر کانگریس نے سماجوادی پارٹی سے اتحاد کے باوجود جس طرح کمزور مظاہرہ کیا اس کے سبب ایک طرف تو خود سماجوادی پارٹی نے کانگریس سے دامن بچا لیا ہے تو دوسری طرف کانگریس کو بھی یہ احسا س ہو گیا ہے کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں کسی علاقائی پارٹی سے انتخابی اتحاد اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔مغربی بنگال کے اسمبلی الیکشن میں ٹی ایم سی کو خاموشی سے واک اوور دینے کے باوجود کانگریس نے وہاں انتخابی اتحاد نہیں کیا اور اب اتر پردیش میں بھی فی الحال یہی معاملہ ہے۔

اتر پردیش کے حالات کانگریس کے لیے مغربی بنگال سے مختلف اس لیے ہیں کہ یہاں انتخابی مہم کی کمان خو پارٹی کی پرجوش جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کے ہاتھ میں ہے۔اس کے سبب کافی عرصے بعد کانگریس کارکنان میں گذشتہ کئی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ جوش نظر آتا ہے۔حالانکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ انتخابی جوش کانگریس کو کتنا فائدہ پپہنچائیگا،لیکن ایک بات تو بہرحال واضح ہے کہ پرینکا کی انتخابی مہم بھی بی جے پی مخالف ووٹروں کی تو جہ کا مرکز بن رہی ہے۔پرینکاکے انتخابی جلسوں میں عوام کی بڑی تعدا دکی شرکت بھلے ہی کوئی بڑا انتخابی بدلاؤ نہ لا پائے لیکن ایک بات بڑی حد تک یقین سے کہی جا سکتی ہے،اور وہ یہ کہ کانگریس کا ووٹ فیصد اس الیکشن میں پہلے کے مقابلے میں بڑھیگا۔ پرینکا کی خود اعتمادی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹوں کے لیے کشمکش کا سبب بن جائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی کو اس کا فائدہ بھی مل سکتا ہے لیکن پرینکا نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ان کی پارٹی اپنے دم پر اسمبلی الیکشن لڑیگی۔پرینکا نے بلند شہر کے انتخابی جلسے میں دعویٰ کیا کہ کانگریس ریاست کی تمام 403 اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدوار اتاریگی۔ظاہر ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم کا خطرہ بھی بڑھ جائیگا۔


حالانکہ پرینکا اپنے جلسوں میں بہت اعتماد سے دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کی پارٹی فتحیاب ہوگی۔دیگر پارٹیوں سے انتخابی اتحا دنہ کرنے کے سوال پر پرینکا کہتی ہیں کہ سماجووادی پارٹی اور بی ایس پی کے لیڈر انّاؤ زنا بالجبر اور قتل کے معاملے کے دوران کہیں نہیں نظر آئے تھے،جبکہ ان معاملوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔پرینکا دعویٰ کر رہی ہیں کہ صرف کانگریس ہی لوگوں کے لیے لڑ سکتی ہے۔ویسے یہ حقیقت بھی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پرینکا سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کے مقابلے میں اتر پردیش سے متعلق یشترمسائل میں زیادہ سرگرم نظر آئی ہیں، جبکہ اکھیلیش اور مایاوتی صرف ٹویٹر کے سہارے اب تک اپنی سیاسی جنگ لڑتے رہے ہیں یا عوامی مسائل پر ٹویٹ کرکے ا پنا سیاسی کاروبار چلاتے رہے ہیں۔دوسری طرف پرینکا تقریباً تمام اہم مسائل پر عوام کے ساتھ راست مکالمہ کرکے اپنی سیاسی پختگی اور مسائل کے تئیں اپنے موقف کا اظہار کرتی رہی ہیں۔بلند شہر ضلع کے انوپ شہر میں انھوں نے جس طرح اپنے کارکنان کو اسمبلی الیکشن میں ”کرو یا مرو“ کا سیاسی منتر دیا اس سے ان کے سیاسی عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔کسانوں کے مسائل پر بھی سونیا گاندھی،راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے کانگریس کے موقف کو بہت مضبوطی کے ساتھ عوام کے سامنے رکھا ہے،اور اب جب کہ زرعی قوانین بل واپس لینے کا علان مودی حکومت نے کر دیا ہے تو کانگریس اور پرینکا گاندھی مغربی اتر پردیش سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرکے کسانوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ ان کے مسائل پر لڑنے کا مادہ صرف کانگریس کے پاس ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تنظیمی سطح پر کانگریس میں جو خامیاں گزشتہ چند برسوں میں آئی ہیں انھیں دور کرنے پر بھی پرینکا کا پورا زور ہے۔انھوں نے عوامی جلسے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بوتھ سطح پر پارٹی کو مضبوط کرکے ہی انتخابی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔

سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور بی جے پی کی انتخابی جیت میں اس کے رول کو دیکھتے ہوئے کانگریس قیادت اور خصوصاً پرینکا گاندھی نے اپنے کارکنان سے اس کے مختلف پلیٹ فارموں پر سرگرم رہنے کے لیے کہا ہے۔پرینکا کی انتخابی مہم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کی تنقید کا نشانہ زیادہ تر حکمراں جماعت ہی بن رہی ہے۔دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی طرح وہ اپوزیشن پارٹیوں پر ہی حملے نہیں کر رہی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ کافی عرصے سے جس طرح کانگریس کے انتخابی جلسوں میں آنے والوں کی تعدا کافی کم ہوتی تھی اب وہ بات نہیں ہے۔اب یہ پرینکا کی اپنی شخصیت کا جادو ہے یا کانگریس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا ثبوت کہ پرینکا کی انتخابی ریلیوں میں عوام کی بڑی تعدا شرکت کر رہی ہے،لیکن یہ تو بہر حال طے ہے کہ پرینکا کی کوششں سے اتر پردیش میں کانگریس دوبارہ اقتدار میں آنے کے خواب دیکھنے لگی ہے اور پارٹی کے کارکنان مایوسی سے باہر نکل رہے ہیں۔پوروانچل کے کئی علاقوں میں بڑی اور کامیاب ریلیاں کرکے کانگریس نے اپنا دم خم دکھایا ہے۔حد تو یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کے گڑھ اور حلقہ انتخاب گورکھپورمیں کی گئی کانگریس کی کامیاب ریلی نے بہت سے سیاسی مبصرین کو بھی حیران کر دیا ہے۔اس ریلی کے بارے میں کہا گیا کہ اتر پردیش کے اقتدار سے باہر ہونے کے تین دہائی بعد کانگریس نے گورکھپور میں اتنی بڑی ریلی کی ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ابھی یہ کہنا جلد بازی ہوگی کہ اتر پردیش میں کانگریس بی جے پی کو کڑی ٹکّر دینے کی پوزیشن میں ہے،لیکن یہ بات بہرحال درست ہے کہ کانگریس اس ریاست میں پہلے کی طرح کمزور نظر نہیں آتی ہے اور پرینکا کی نوجوان قیادت کے نتیجے میں کانگریس بھی اسمبلی انتخابات کے منظر نامے کی ایسی پارٹی بن رہی ہے کہ جس کی طاقت بی جے پی کی شکست میں بڑا رول ادا کر سکتی ہے،اور جو غیر متوقع طور پر ریاست کی اہم سیاسی طاقت کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330

Related posts

2021 میں اسرائیلی کاروائیوں میں357 فلسطینی شہید ہوئے۔

qaumikhabrein

بن سلمان نے شام کے بارے میں اپنی غلط پالیسیوں کا اعتراف کیا

qaumikhabrein

ڈیلٹا وائرس کا پھیلاؤ خطرناک مرحلے میں داخل۔ ڈبلو ایچ او کی وارننگ۔

qaumikhabrein

Leave a Comment