
اتر پردیش میں ایک طرف بی جے پی متھرا ا ور کاشی کو انتخابی ایجنڈے میں شامل کرکے ہار رہی بازی جیتنے کے لیے زور لگا رہی ہے تو دسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے بھی بی جے پی کی اتر پردیش حکومت اور مرکزی حکومت پر سخت حملے شروع کر دیے ہیں۔ان انتخابی بیان بازیوں میں سب سے تازہ اور دلچسپ بیان وزیر اعظم نریندر مودی کا ہے،جنھوں نے اپنی ایک حالیہ ریلی میں سماجوادی پارٹی کے کارکنوں کے ذریعہ لگائی جا رہی سرخ ٹوپی کو خطرے کی نشانی بتا کر ٹوپی پر ہی سیاست شروع کر دی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ٹوپی کی اس سیاست میں اقتدار کی ٹوپی کسے ملتی ہے،اور کون سی پارٹی کسے ’ٹوپی پہنانے‘ یعنی شکست دینے کا کام کرتی ہے۔
دراصل چند روز قبل گورکھپور میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ”لال ٹوپی والے یو پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔سماجوادی پارٹی یا اس کے کسی لیڈر کا نام لیے بغیر مودی نے کہا کہ دہشت گردوں پر مہربانی کرنے اور انھیں جیل سے رہا کرانے کیے لیے لا ل ٹوپی والے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں“۔سماجوادی یا کسی بھی دیگر اپوزیشن پارٹی نے کتنے دہشت گردوں کو جیل سے چھڑایا ہے اس کی فہرست بھی اگر مودی عوام کے سامنے رکھ دیتے تو بہتر تھا،لیکن جس حکومت کے وزیر اعظم مودی ہیں اسے تو یہ تک نہیں معلوم کہ کسان تحریک کے دوران کتنے کسان جاں بحق ہوئے۔اس لیے اس پارٹی کے کسی لیڈر سے یہ توقع کہ وہ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت بھی پیش کریگا لا حاصل ہے۔ویسے بھی بی جے پی لیڈروں کا سب سیاسی کاروبار جھوٹ پر ہی چل رہا ہے۔ بہرحال وزیر اعظم نے سابقہ اکھیلیش سرکار پر الزام لگایا کہ اس نے مجرموں کو تحفظ فراہم کراکے ریاست کو بدنام کیا۔مودی کے اس الزام کا سماجوادی پارٹی کیا جواب دیتی ہے یہ وہی جانے،لیکن جہاں تک مودی کے لال ٹوپی والے بیان کا تعلق ہے تو اس پر صرف سماجوادی پارٹی ہی نہیں بلکہ لالو پرساد کی راشٹریہ جنتا دل اور عام آدمی پارٹی نے بھی سخت جوابی حملہ کرتے ہوئے آر ایس ایس کارکنان کے ذریعہ شاکھاؤں میں لگائی جانے والی سیاہ ٹوپی کو موضوع تنقید بنایا ہے۔

۔لالو پرساد نے مودی کے مذکورہ بیان پر طنز کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ”کیا لال قلعے کا بھی نام بدل کر ”نارنگی قلعہ“ کیا جائیگا؟لالو کی پارٹی نے ایک دوسرے ٹویٹ میں تیجسوی یادو اور اکھیلیش کی تصویر اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ،”لال ٹوپی ہو یا ہری ٹوپی،خاکی نارنگیوں کے لیے یہ ہمیشہ ’ریڈ الرٹ‘کا سبب بنی رہیگی۔جبکہ عآم آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے مودی کے بیان کے رد عمل میں سیاہ ٹوپی لگائے ہوئے ان کی ایک تصویر پوسٹ کی ہے۔پارٹی کے ترجمان مکیش سنگھ نے سیاہ ٹوپی سے ریاست کے لوگوں کو خبردار رہنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سیاہ ٹوپی دکھ اور بد امنی کی علامت ہے۔مکیش سنگھ نے ٹویٹ کیا ہے کہ بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ مہنگائی کم کرینگے،روزگار دینگے،خواتین کو تحفظ فراہم کرینگے لیکن ہوا اس کے برعکس۔عام آدمی کی تھالی سے روٹی چھن گئی۔جرائم نقطۂ عروج پر ہیں۔بد عنوانی کا بول بالا ہے۔احتجاج کرنے والے کسانوں پر گاڑیاں چڑھائی جا رہی ہیں۔ عآ م آدمی پارٹی ترجمان سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ایسے الزامات کا مودی یاان کے سپہ سالاروں کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے۔بات کا رخ موڑنے کے لیے پارٹی لیڈر کبھی سابقہ حکومتوں پر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں تو کبھی مندر،مسجد یا کاشی وشوناتھ کاریڈور جیسے موضوعات کا سہارا لے کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ صرف وہی ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کر سکتے ہیں۔یعنی عوام کو گمراہی میں مبتلا کرکے اصل مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ حکمراں جماعت کی نا اہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے پھینکے گئے مذہب کے دام فریب میں کسی حد تک پھنسنے کے باوجود عوام کو یہ باور کرانے کی کامیاب کوشش کر رہی ہیں کہ دھرم کے نام پر ڈارامہ کرنے والوں نے عوام کے مفادات کو نظر انداز کیا ہے،اور مذہب یا مندر مسجد جیسے ایشوز کا سہارا صرف سیاسی مقصد سے لیا جا رہا ہے۔سماجوادی پارٹی کے حلیف اور سکھدیو بھارتی سماجوادی پارٹی کے صدر اوم پرکاش راج بھر نے وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقہ انتخاب وارانسی میں بی جے پی کی مندر مسجد سیاست پر یہ کہہ کر حملہ کیا کہ کاشی وشوناتھ کاریڈور سے غریبوں کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔حکومت کو کسانوں کا دکھ درد نظر نہیں آرہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کی خراب حالت کو دیکھتے ہوئے ہی مرکزی حکومت نے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا اور چند روز قبل پارلیمنٹ میں باقاعدہ یہ قوانین واپس بھی لے لیے گئے، اس کے باوجود حکومت اس معاملے پر بری طرح پھنس چکی ہے۔کسانوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ فی الحال ان قوانین کو واپس لینے کے پیچھے حکمراں جماعت کے سیاسی مفادات کارفرما ہیں۔اسی لیے بل واپس لینے کے باوجود کسانوں کا رجحان بی جے پی کی طرف نظر نہیں آتا۔میرٹھ میں سماجوادی پارٹی اور جینت چودھری کی راشٹریہ لوک دل کی پر ہجوم ریلی اس بات کا ثبوت ہے۔اس علاقے کا کسان جن میں بڑی آبادی جاٹ برادری کی ہے،اس کا بی جے پی پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔حالانکہ گذشتہ لوک سبھا اور اس کے بعد اسمبلی الیکشن میں اس برادری نے بی جے پی کی جیت میں اہم رول ادا کیا تھا۔ بہرحال راج بھر نے جس طرح مودی کے گڑھ یعنی وارانسی میں ہی بی جے پی کی مندر مسجد پالیسی اور ہندو مسلمان پالیسی کو نشانہ بنایا اس سے بدلے ہوئے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔راج بھر نے بی جے پی قیادت والی حکومت پر طنز کیا کہ اسے صرف پاکستان،مسلمان اور قبرستان جیسی چیزیں نظر آتی ہیں جبکہ عوام کو روٹی،کپڑا،مکان اور تعلیم کی ضرورت ہے۔اس کے بعد ہی وہ بھگوان کی پوجا کریں گے۔ بات صرف یہ نہیں ہے کہ راج بھر یا دیگر اپوزیشن لیڈر بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومت کے بارے میں کیا کہہ رہیں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کی جیت میں اب تک اہم رول ادا کرنے والے لوگوں میں ایک بڑی تعدا د ایسی ہے کہ جو صرف مذہبی ایشوز پر سیاست کی بی جے پی کی پالیسی کو سمجھ چکی ہے اور ہندوازم سے لگاؤ یا عقیدت کے باوجود بی جے پی کے ہندوتو میں اس کی دلچسپی ختم ہو رہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ وارانسی میں سماجوادی پارٹی کے کارکنوں کے ذریعہ لگائی جانے والی ٹوپی پر طنز کے پس پشت بھی کئی پہلو پوشیدہ تھے۔ٹوپی کو مسلمانوں کی مذہبی علامت کے طور پر بھی دکھا جاتا ہے،اور لال رنگ بائیں بازو کی پارٹیوں کا بھی علامتی رنگ ہے،جنھیں ہندوتو کا سخت مخالف مانا جاتا ہے۔مودی جب لا ل ٹوپی کا ذکر کر رہے تھے تو ان کا نشانہ کون کون تھا یہ تو وہی بہتر جانتے ہونگے لیکن ان کے بیان نے بی جے پی کو کئی فائدہ بہرحال نہیں پہنچایا۔اس لیے کہ ملک کے عوام اب اس طرح کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔بلکہ وزیر اعظم کی بات نے اپوزیشن پارٹیوں کو بی جے پی پر سخت حملے کرنے کا ایک موقع اس بہانے ضرور دے دیا،اور اب اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو ’ٹوپی پہنانے‘ کی کوششوں میں پہلے سے زیادہ جارحانہ انداز میں لگ گئی ہیں۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330