
ایران کے شیخ بہائی رحمة الله علیہ کی انجینئرنگ اور ریاضی پر زبردست مہارت تھی کہ آج اتنی ترقی کے باوجود دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بطور مثال ایران میں مسجد چہل ستون ہے جس کے بیس ستون دریا کے کنارے اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جب آپ سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں تو چالیس ستون نظر آتے ہیں۔ بیس ستونوں کا عکس کچھ اس انداز سے دریا پر پڑتا ہے کہ پورے چالیس ستون ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ وہ پوری مسجد شیخ بہائی رحمة الله علیہ کی تیار کردہ ہے۔

اصفہان میں تین پُل ہیں ان میں سے ایک پُل شیخ بہائی رحمة الله علیہ نے اپنی نگرانی میں بنایا تھا اس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگ سمجھ لیں گے جو دریا کے بہاؤ کو جانتے ہیں۔ کہ دریا جب بہتا ہے تو درمیان میں اور کنارے میں ایک جیسا بہاؤ نہیں ہوتا۔ بیچ میں زیادہ ہوتا ہے اور کناروں میں کم ہوتا ہے۔ مگر یہ پل آج کل کا ڈیم یا بند نہیں۔ یہ پُل شیخ بہائی رحمة الله علیہ نے اس طرح تعمیر کروایا کہ اس کے تینتیس دروازے ہیں اور سیلاب آئے، طوفان آئے یا پانی کم ہو جائے یا عام دن ہوں تو ہر دروازے سے یکساں طور پر پانی نکلتا ہے۔ یہ کوئی ڈیم نہیں یہ پانچ سو سال پہلے اپنے سامنے بنوا کر اپنی نگرانی میں اتنی مہارت کے ساتھ اس پُل کو بنوایا تھا کہ آج تک لوگ اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔

اسی طرح اصفہان میں ایک حمام تھا، اگرچہ انگریزوں نے اسے تباہ کر دیا۔ مگر آج تک یہ حمام شیخ بہائی رحمة الله علیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس حمام کی خوبی یہ تھی اس کا جو ذخیرہ ٹینک تھا۔ اس میں پانی ہمیشہ گرم رہتا تھا۔ چاہے سردی ہو یا گرمی ہو، پانی ہمیشہ گرم رہتا تھا۔ جب فتح علی شاہ کے زمانے میں انگریز وہاں پہنچے تو وہ اسے دیکھ کربڑے حیران ہوئے۔ کہ آخر یہ کیا ہے اور یہ حمام جس میں نہانے کے لیے بیسیوں کمرے بنے ہوئے تھے اس کا پانی ڈھائی سو سال گزر گئے اب تک گرم ہے۔راز جاننے کے لئےانھوں نے اس حمام کے ٹینک کو توڑا توڑا تو دیکھا کہ اس کے نیچے فقط ایک مشعل جل رہی ہے۔ اور اس مشعل کو اتنے کمال کے ساتھ اس اینگل اور زاویے پر لگایا گیا کہ جس کی وجہ سے ڈھائی سو سالہ ذرخیز پانی گرم رہتا چلا آ رہا تھا۔ اب اس کا راز معلوم ہوا ہے کہ اصفہان کے گندے پانی سے جو گیسیں پیدا ہوتی تھی اُسے شیخ بہائی رحمة الله علیہ نے اس طرح سے حمام کے نیچے سے گزارا تھا کہ اس کی گیس حمام کا پانی گرم کرنے کا ایندھن تھی۔ یہ شیخ بہائی رحمة الله علیہ کی اپنی نگرانی میں تیار کردہ حمام تھا۔

عراق میں نجف اشرف میں شیخ بہائی رحمة الله علیہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے روضے کی تعمیر میں بہت زیادہ حصہ لیا اور اس روضے کے اندر انجینئرنگ کے بہت سے کمال آپ کی وجہ سے ہیں۔ یہ پانچ سو سال پہلے کی بات ہے شیخ بہائی رحمة الله علیہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے روضے کو اس طرح تعمیر کرایا۔ کہ سردی ہو یا گرمی۔ یا برسات۔ نجف میں جب بھی سورج نکلتا ہے اس کی پہلی کرن روضہ امیرالمومنین علیہ السلام پر آ کر پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ حرم کے صحن کی دیوار کو اس مہارت سے بنایا گیا ہے کہ سردی ہو یا گرمی دیوار کا سایہ زمین پر آتا ہے۔ ظہر کا وقت اول ہو جاتا ہے۔کوئی بھی موسم ہو کیسا بھی موسم ہو۔ اس انداز اور اس اینگل سے اسے بنایا گیا ہے۔ اس دیوار کا سایہ زمین پر آئے گا سمجھ لیجئے ظہر کا وقت شروع ہو گیا۔ یہ شیخ بہائی رحمة الله علیہ کی انجینئرنگ ہے۔