سپریم کورٹ میں جاری شیو سینا کے دو گروپوں کی جنگ میں عدالت نے فی الحال ادھو ٹھاکرے گروپ کو کوئی راحت نہ دیتے ہوئے اس معاملے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار تو کر دیا ہےلیکن اس انکار کے باوجود عدالت نے اس تنازعہ کے تعلق سے گورنر کے رول پر جو تبصرہ کیا وہ اہم ہے اور اس کے اثرات مستقبل قریب میں اس طرح کے معاملوں میں گورنروں کے سیاسی استعمال کی شرمناک روایت پر پڑنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مذکورہ معاملے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے حالانکہ ادھو گروپ کو فی الحال اصل شیو سینا ماننے سے انکار کر دیا اور اس معاملے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر روک لگانے کی ادھو ٹھاکرے کی عرضی کو بھی خارج کر دیا،لیکن دوسری طرف ادھو ٹھاکرے کی اس درخواست کو مان لیا کہ الیکشن کمیشن اور شندے گروپ کو نوٹس جاری کیا جائے۔دراصل سپریم کورٹ نے ادھو ٹھاکرے گروپ کو اصل شیو سینا ماننے کی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کی دوسرے فریق کے موقف کو جانے بغیر عدالت اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔اسی لیے اس معاملے میں عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔اس کے باوجود گورنر کے رول پر جو تبصرے کیے گئے ان کا موجودہ معاملے پر کوئی اثر بھلے ہی نہ پڑے لیکن اس کے دور رس اثرات سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس سے کسی نہ کسی حد تک گورنروں کی ’سیاسی سرگرمیوں‘ پر قدغن لگانے میں مدد ملیگی۔
مذکورہ معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس چندر چوڑ نے گورنر کے وکیل کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئے سالیسیٹر جنرل توشار مہتا سے جس طرح سوالات کیے اس کا کوئی اطمینان بخش جواب مہتا عدالت کو نہیں دے سکے۔چیف جسٹس نے صاف کہا کہ گورنر کو ’فلور ٹسٹ‘ اس طرح نہیں کرانا چاہیے تھا کہ جس طرح گورنر نے کرایا۔انھوں نے سوال کیا کہ گورنر نے آخر کس بنیاد پر یہ اندازہ لگا لیا کہ آئیندہ کیا ہونے والا ہے؟چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ کیا فلور ٹسٹ کرانے کے لیے کوئی مناسب جواز گورنر کے پاس موجود تھا؟جسٹس چند ر چوڑ کا کہنا تھا کہ شیو سینا کے داخلی اختلافات کی بنیاد پر کیسے یہ اندازہ لگایا گیا کہ کیا ہونے والا ہے؟گورنر نے فلور ٹسٹ ہی کیوں کرایا؟چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ گورنرکو کس چیز نے یقین دلایا کہ حکومت ایوان کا اعتماد کھو چکی ہے۔چیف جسٹس کی رائے تھی کہ گورنر کو ابتدائی طور پر تمام منحرف 34ممبران اسمبلی کو شیو سینا کا حصہ ماننا چاہیے تھا۔ عدالت کا موقف تھا کہ پارٹی کے داخلی اختلافات فلور ٹسٹ کی بنیاد نہیں بن سکتے،اور پارٹی کے نئے رہنما کے انتخاب کے لیے فلور ٹسٹ نہیں کرایا جا سکتا۔پارٹی کا سربراہ کوئی بھی بن سکتا ہے،اور جب تک اتحاد بر قرار ہے گورنر کا وہاں کوئی کام نہیں۔یہ سب پارٹی کے اندرونی نظم و ضبط کا معاملہ ہے۔ گورنر کی طرف سے پیش توشار مہتا کی دلیل تھی کہ47ممبران اسمبلی نے گورنر کو خط لکھا تھا ان میں دوسری پارٹیوں کے دو ممبر بھی شامل تھے۔ایسی صورت میں گورنر کے پاس فلور ٹسٹ کا مناسب جواز تھا اور وہ خاموش تماشائی نہیں بنے رہ سکتے تھےتوشار مہتا کی اس دلیل پر چیف جسٹس مزید برہم ہوگئے اور انھوں نے سخت لہجے میں کہا کہ،”تین سال تک تو یہ اراکین حکومت میں شامل رہے۔وزیر بھی بنے رہے،یعنی ’ہیپّی میرج‘ میں رہے لیکن اچانک ایک دن کہتے ہیں کہ انھیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے،یعنی ’طلاق‘ چاہیے۔یہ کیسے ممکن ہے؟
مجھے نہیں معلوم کہ چیف جسٹس کے اس تبصرے پر گورنر کے وکیل توشار مہتا نے بغلیں جھانکیں یا کیا رد عمل ظاہر کیا،لیکن چیف جسٹس کا یہ تبصرہ آئین و قانون کو مذاق بنا دینے کے گورنر کے عمل پر سخت چوٹ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے جس طرح گورنر وں کے وقار کو خاک میں ملاتے ہوئے انھیں اپنا حاشیہ بردار اور اپنی پارٹی کے مفادات کا محافظ بنانے کا کام کیا ہے اسے ہمارے جمہوری نظام کے لیے ایک بڑے خطرے کے طورپر دیکھا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ گورنر آئین کے تحت اس وقت تک وزیر اعلیٰ کے مشوروں کو ماننے کا پابند ہے جب تک کہ کسی طے شدہ ضابطے کے تحت اس کی حکومت کا اقلیت میں ہونا ثابت نہ ہو جائے۔
جہاں تک ایسے معاملوں میں گورنر کے اختیارات کا تعلق ہے تو آئین کا آرٹیکل174(2)کہتا ہے کہ ’گورنر ایوان کا اجلاس طلب کر سکتا ہےاور یہ ثابت کرنے کے لیے ایوان میں فلور ٹسٹ کے لیے کہہ سکتا ہے کہ حکومت کے پاس ممبران اسمبلی کی خاطر خواہ تعداد ہے یا نہیں۔‘حالانکہ گورنر آئین کے آرٹیکل 163کے تحت ہی ایسا کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔یہ آرٹیکل وزیر اعلیٰ کی سربراہی والی کابینہ کی مدد اور صلاح پر ایسا کر سکتا ہے۔یعنی جب تک کابینہ اسے ایسا کرنے کا مشورہ نہ دے تو محض حکومت کے اقلیت میں ہونے کے شک کی بنیاد پر فلور ٹسٹ کے لیے گورنر با اختیار نہیں ہے۔اس سلسلے میں ’نبام ریبیا اور بامانگ فیلکس بنام نائب صدر معاملے میں سپریم کورٹ 2016میں کہہ چکا ہے کہ ایوان کو بلانے کا اختیار صرف گورنر کو ہی حاصل نہیں ہے۔2020میں شیو راج سنگھ چوہان معاملے میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اسپیکر کے اختیارات کو برقرار رکھتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ اگر
بادی النظر میں کوئی خیال ہے کہ حکومت نے اکثریت کھو دی ہے تو فلور ٹسٹ کرانے کے لیے اسپیکر کے پاس ہی اختیارات ہیں۔‘لیکن شیو سینا معاملے میں اسپیکر کو فلور ٹسٹ کے لیے حکومت کو کہنے سے پہلے ہی گورنر نے اس معاملے میں مداخلت کر دی۔
دراصل زیر بحث معاملے میں سپریم کورٹ نے گورنر کے رول پر جو تبصرے کیے ہیں وہ بے سبب نہیں ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ نے اس معاملے میں شندے حکومت بن جانے کے بعد جو بیان دیا تھا اور جس طرح ادھو ٹھاکرے اور ان کی پارٹی کے خلاف انتقامی لہجہ اختیار کیا تھا اس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ شیو سینا کے ممبران نے ادھو ٹھاکرے کے تئیں وفاداریاں اچانک کیوں بدل دیں۔ادھو کے ذریعہ بی جے پی کو ٹھکرا کر حکومت سازی کرنے میں کانگریس اور این سی پی کے گٹھ بندھن نے جو رول ادا کیا تھا اس کے نتیجے میں بی جے پی بری طرح تلملائی ہوئی تھی اور شیو سینا سے مناسب وقت پر انتقام لینے کے انتظار میں تھی۔امت شاہ کی ایسے معاملوں میں مہارت جگ ظاہر ہے۔بہرحال گورنر نے جو اس پورے معاملے میں رول ادا کیا تھا اس نے ایک مرتبہ پھر اس عہدے کو تنازعات سے دوچار کر دیا تھا اور سپریم کورٹ کے تازہ موقف کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ٹھاکرے حکومت کی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا کہ جس کی بنا پر ان کی پارٹی کے ممبران اسمبلی کی بڑی تعداد ان سے منحرف ہو جاتی۔یعنی پارٹی میں بغاوت کا کوئی مناسب جواز نہیں تھا۔گورنر کو ایسے معاملے میں شیو سینا کی داخلی سیاست سے دور رہناچاہیے تھا۔عہدے کے وقار کا یہی تقاضہ تھا،لیکن مرکز کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس وقار کا خیال نہیں رکھا گیا۔یہ مان لیا گیا کہ ٹھاکرے اکثریت کھو چکے ہیں اور اس پر یقین کے لیے مناسب طریقہ کار کی بجائے جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا۔شائد اس لیے کہ مرکزی آقا یہی چاہتے بھی تھے۔اس طرح ٹھاکرے حکومت کو انتقامی سیاست کی قربان گاہ پر قربان کر دیا گیا۔سپریم کورٹ کے تبصرے دراصل عدالت کے اسی احساس کو بین السطور بیان کرتے ہیں۔یہ معاملہ ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے اور الیکشن کمیشن و شندے حکومت سے بھی اپنا موقف رکھنے کے لیے عدالت نے کہا ہے۔اس کے لیے نوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں۔اس لیے حتمی فیصلہ کیا ہوگا یہ کہنا ابھی ممکن نہیں،لیکن سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے تبصرے بہت کچھ کہہ دیتے ہیں اور انھیں مستقبل میں گورنروں کی ایسی کسی کارروائی میں نظیر کے طور پر پیش کیا جائیگا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330