qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

مرکزی سرکار الزامات کے گھیرے میں ۔۔سراج نقوی

پیگاسس جاسوسی معاملے کی سپریم کورٹ کی ہدایات پرجانچ کرنے والی سہ رکنی کمیٹی نے تین حصّوں پر مشتمل اپنی جانچ رپورٹ عدالت کو سونپ دی ہے۔اس رپورٹ کے بارے میں عدالت کی سہ رکنی بنچ نے کہا کہ جانچ کمیٹی نے انتیس میں سے پانچ ڈیوائس میں مال وئر پایا ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنّاکی قیادت والی سہ رکنی بنچ نے اس جانچ رپورٹ سامنے آنے کے بعد مودی حکومت پر جو تبصرہ کیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کس طرح سپریم کورٹ کے احکامات کو نہ صرف نظر انداز کرتی ہے بلکہ ایک بیحد اہم اور ملکی مفادات سے وابستہ معاملے میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے بھی جانچ کرنے والوں سے کوئی تعاون نہیں کرتی۔اس کا سبب خواہ کچھ بھی ہو لیکن عوام میں اس سے یہی پیغام جائیگا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔موجودہ حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ زعم اقتدار میں عدلیہ اور دیگر آئینی اداروں کی حرمت پامال کرنے سے بھی انھیں گریز نہیں اور یہ صورتحال جمہوریت کو مذاق بنائے دے رہی ہے۔بنچ نے صاف کہا ہے کہ حکومت نے جانچ کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ایسے میں ظاہر ہے کہ جانچ کمیٹی کے لیے واضح نتائج اخذ کرنا مشکل تھا۔شائد یہی سبب ہے کہ جانچ رپورٹ میں یہ تو کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو اس سلسلے میں ملی ڈیوائس میں پانچ مال وئر ملے ہیں،لیکن اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مال وئر پیگاسس سے متعلق ہیں یا نہیں۔یعنی جانچ میں یہ واضح نہیں ہو سکا کہ جانچ میں استعمال کیا گیا مال وئر پیگاسس کا تھا یا نہیں۔ظاہر ہے اگر کمیٹی کو مال وئر کے پیگاسس کا ہونے کے ثبوت نہیں مل سکے تو ساری جانچ ہی بے مقصد ہو جاتی ہے۔ان حالات میں کوئی مودی حکومت پر خواہ کوئی بھی الزام لگائے لیکن حکومت آرام سے اپنی بے گناہی کا ڈھول بجا سکتی ہے۔

اب یہ پوچھنے کی ہمت کس میں ہے کہ آخر جانچ کمیٹی کے ساتھ کس بنا پر تعاون نہیں کیا گیا اور حکومت نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلیے ایک آئینی و قانونی طریقے کو کس لیے نظر انداز کیا؟معاملے کی سماعت کرنے والی بنچ نے کہا کہ اسے جانچ کمیٹی کے ایک رکن جسٹس رویندرن نے مطلع کیا ہے کہ حکومت نے کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔بنچ نے حکومت کی طرف سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ ”وہی رویہ آپ نے یہاں اختیار کیا اور وہی رویہ وہاں اختیار کیا”۔واضح رہے کہ گذشتہ برس جب اس معاملے کی سماعت ہو رہی تھی تو مہتا نے ایک بہت ہی عجیب درخواست عدالت سے کی تھی کہ حکومت سے یہ نہ پوچھا جائے کہ اس نے پیگاسس اسپائی وئر کا استعمال کیا ہے یا نہیں،کیونکہ اس سے دہشت گرد الرٹ ہو جائینگے،اور یہ قومی سلامتی سے متعلق معاملہ ہے۔عدالت نے حکومت کی اس دلیل پر یہ بھی کہا تھا کہ وہ قومی سلامتی کی آڑ میں احتساب سے نہیں بچ سکتی۔بہرحال حکومت کے اس موقف کے بعد ہی عدالت نے اس معاملے کی جانچ کے لیے سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔لیکن کیا یہ بات مضحکہ خیز اور اس سے بھی زیادہ پر اسرار نہیں کہ حکومت نے قومی سلامتی کے بہانے اس معاملے میں ایسا موقف اختیار کیا۔حالانکہ اگر معاملہ رازداری کا ہی تھا تو صرف عدالت کو اعتماد میں لیکر اس کے سامنے حقائق رکھے جا سکتے تھے،اور یہ درخواست کی جا سکتی تھی کہ عدالت کے سامنے رکھی گئی اطلاعات کو عام نہ کیا جائے۔لیکن ایسا نہ کر کے سچ کو مختلف بہانوں سے چھپایا گیا حتیٰ کہ جانچ کمیٹی کے ساتھ بھی تعاون نہیں کیا گیا۔حالانکہ سپریم کورٹ کی مذکورہ بنچ نے یہ ضرور کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ جامع ہے۔عدالت اس رپورٹ کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔البتّہ اس کے کچھ حصے صیغۂ راز میں رکھے جانے کا بھی امکان ہے۔بہرحال اب اس معاملے کی آئیندہ سماعت ایک ماہ بعد ہوگی اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عدالت عظمیٰ حکومت کے عدم تعاون پر کیا موقف اپناتی ہے۔

حکومت کی کارکردگی یا طریقہ کار پر ایک اور سخت تبصرہ ٹویٹر کے ایک سابق افسر کا آیا ہے۔اس افسر نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ایک سرکاری ایجنٹ کو ملازمت پر رکھنے کے لیے مجبور کیا تھا۔پیٹر زیٹکو نام کے اس افسر نے ایک شکایت میں کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسے لوگوں کوٹویٹر میں ملازم رکھنے پر مجبور کیا گیا جومبینہ طور پر حکومت کے ایجنٹ تھے اور جن کی ٹویٹر کے انتہائی حسّاس مواد تک رسائی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق یہ شکایت پہلے ایک سرکاری ادارے کو بھیجی گئی تھی،اور گزشتہ منگل کے روز اسے ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے شائع کر دیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیٹکو نام کے مذکورہ افسر کو کئی ایسے معاملات کا بھی پتہ چلا کہ جن میں ٹویٹر جمہوری انتظامیہ کے لیے خطرہ پیدا کرنے میں شامل تھا۔
اس الزام کا مطلب یہ ہوا کہ ٹویٹر اپنی مرضی یا کسی دباؤ میں جمہوری قدروں کے خلاف حکومتوں کافرماں بردار بنا رہا۔اسی تسلسل میں ٹویٹر کے مذکورہ افسر نے حکومت ہند کے ذریعہ اپنے کسی ایجنٹ کی تقرری کا بھی ذکر کیا ہے۔اور یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ ٹویٹر کے افسران نے جان بوجھ کر کمپنی کے اپنے یوزرس سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔

ٹویٹر کے مذکورہ سابق افسر کے الزامات میں کتنی صداقت ہے یہ کہنا تو فی الحال مشکل ہے،لیکن ایک بات تو بہرحال واضح ہے کہ اس وقت ٹویٹر نے کرناٹک ہائی کورٹ میں مودی سرکار کے خلاف ایک عرضی دائر کر رکھی ہے جس میں حکومت پر مختلف الزام لگائے گئے ہیں۔ٹویٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ ان حالات میں اس کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ٹویٹر اور حکومت کے درمیان چھڑی یہ جنگ نئی نہیں ہے۔حکومت متعد مواقع پر ٹویوٹر سے کسی یوزر کے اکاؤنٹ کو بند کرنے یا معطل کرنے،یا کچھ ٹویٹس کو ہٹانے کی ہدایت دیتی رہی ہے۔ظاہر ہے حکومت نہیں چاہتی کہ ٹویٹر یادیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس کے خلاف کچھ بھی کہا جائے۔ ایک جمہوری سماج میں جمہوری طور پر منتخب حکومت سوشل میڈیا پر عوام کی آواز کیوں دبانا چاہتی ہے اسکا جواب تو حکومت کا کوئی ترجمان ہی دے سکتا ہے،حالانکہ اس کا امکان تقریباً نہیں کے برابر ہے،لیکن جہاں تک ہمارے جمہوری ضابطوں،اقدار اور اصولوں و قوانین کا سوال ہے تو ان سب کو حکومت کے اس رویے سے سخت نقصان پہنچا ہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ حکومت کچھ اہم معاملات میں حقائق کو عوام کے سامنے رکھنے یا آئینی و قانونی اقدار کو قبول کرنے سے کیوں گریز کرتی ہے۔مذکورہ دونوں معاملے اس بات کے گواہ ہیں کہ حکومت دراصل عوام کی آواز کو کسی نہ کسی طرح دبانا چاہتی ہے۔
گزشتہ چند سال کے حالات سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کو نہ تو یہ پسند ہے کہ اس سے کسی اہم قومی مسئلے پر سوال کیا جائے اور نہ ہی اس کے نزدیک اپوزیشن کی کوئی اہمیت ہے۔حالانکہ بی جے پی کے سینئیر لیڈر اور مرکزی وزیر نتین گڈکری چند روز قبل ہی کہہ چکے ہیں کہ جمہوری حکومت میں اپوزیشن کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس مضبوط ہو،لیکن پارٹی کے دیگر لیڈر بشمول وزیر اعظم مودی اور امت شاہ کانگریس مکت بھارت کی بات کہتے رہے ہیں۔اس سے پارٹی قیادت کی نیت کا پتہ چلتا ہے۔اپوزیشن کوکمزور کرنے کی یہ کوششیں درحقیقت حکمرانوں کے آمرانہ مزاج کا ثبوت ہیں۔پیگاسس معاملے اور ٹویٹر کے ایک افسر کا مودی حکومت پر لگایا گیا دباؤ ڈالنے کا الزام اس کا ہی ثبوت ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile: 9811602330

Related posts

ممبئی میں ایک اہم چوراہا خطیب اکبر مولانا اطہر کے نام منسوب

qaumikhabrein

ہندستان کی مذمت کرنے والی قرارداد امریکی کانگریس میں پیش

qaumikhabrein

نندی گرام چناؤ نتیجے کو ممتا بنرجی نے عدالت میں چنوتی دی۔

qaumikhabrein

Leave a Comment