سعودی عرب نے ماہ مبارک رمضان کے پیش نظر ایک نیا آئین نامہ مساجد اور انکے ائمۂ جماعت کے لئے جاری کیا ہے جس میں نماز کو چینلز کے ذریعے نشر کئے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عکاظ روزنامے کے مطابق آل سعود کی وزارت برائے مذہبی امور اور ارشاد و تبلیغ نے بظاہر ماہ مبارک کے پیش نظر ایک خاص آئین نامہ جاری کیا ہے جس میں مساجد کے ذمہ داروں اور منجملہ انکے ائمہ جماعت کے لئے خصوصی ہدایات ذکر کی گئی ہیں۔
سعودی وزارت کے بیان میں آیا ہے کہ کسی چینل کو نماز نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ساتھ ہی مساجد کے ائمہ جماعت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ واجب نمازوں کے بعد ’مفید‘ کتابیں نمازیوں کے لئے پڑھیں اور ایسے موضوعات پر گفتگو کریں جو قومی اتحاد کے لئے مفید ہوں۔اسکے علاوہ بچوں کو مساجد لے جانے پر بھی اِس بہانے سے پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ یہ عمل دیگر نمازیوں کی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔
آل سعود خاندان کے کرتوتوں سے پردہ اٹھانے والی ویب سائٹ سعودی لیکس نے انکشاف کیا ہے کہ اس قسم کے اقدامات ولیعہد محمد بن سلمان کے تیار کردہ جامع ترقیاتی منصوبے (وژن ۲۰۳۰) کا حصہ ہیں جس میں ملک کو سیکولرزم کی جانب لے جانے اور اسکی ’مذہبی‘ ماہیت کو بتدریج تبدیل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ۔
سعودی لیکس کی رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ ولیعہد محمد بن سلمان پردے اور عقائد جیسے امور میں آزادی دے کر بقول خود کے ’انتہاپسندی کا خاتمہ‘ کرنا چاہتے ہیں اور اس سے انکی مراد بھی شاید شرابی اور جواری جیسے دین سے منحرف ہونے والے افراد کو سزا سے معاف رکھنا ہے۔
اس کے علاوہ بن سلمان کے حکم سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری پولیس کو سونپ دی گئی ہے اور عوام، علما اور شیوخ کو ان معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ قبیلۂ آل سعود کے ولیعہد بن سلمان کے تیار کردہ منصوبے کا مقصد ترقی کے نام پر ملکی تاریخ سے آہستہ آہستہ اسلامی طرز فکر کا خاتمہ کر کے وہاں پر سیکولرزم اور دین مخالف افکار و نظریات کو عام کرنا ہے