دلّی میں منعقد آر ایس ایس کے ایک پروگرام میں بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے جس طرح مسلم مخالف اپنے اقدامات کو حصولیابی کے طور پر پیش کیا اس سے واضح ہے کہ بھگوا طاقتیں اسلاموفوبیا کی شکار ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف منافرت پر مبنی اپنے کارناموں کو کامیاب حکمرانی کا معیار مانتی ہیں۔حالانکہ اس طرز فکر نے ملک کی معیشت اور سماجی تانے بانے کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اس کا پوری طرح اندازہ ابھی نہیں لگایا جا سکتا۔اس کے دور رس نتائج پورے ملک کے لیے تباہ کن ہونگے۔یہ الگ بات کہ فرقہ فرست طاقتوں کے نزدیک ملک کا مطلب ہندو راشٹر ہے اور یہ طاقتیں اقتصادی،سماجی و ثقافتی تباہی کی قیمت پر بھی اس نشانے کو حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
دراصل مذکورہ پروگرام سنگھ کے ترجمان اخبارات ’پانچجنیہ‘اور ’آرگنائزر‘کے 58 برس مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا تھا۔اس پروگرام میں بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے۔ان میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ،اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا وغیرہ خاص طور پر اس لیے قابل ذکر ہیں کہ ان سب نے اپنی حکمرانی سے متعلق جو رپورٹ کارڈ پیش کیا اس میں تمام باتوں کا خاص طور پر ذکر تھا کہ جن کا تعلق سنگھ کے فرقہ وارانہ ایجنڈے سے ہے۔حالانکہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست میں امن و قانون کی صورتحال میں بہتری اور سابقہ حکومتوں کے حالات کا موازنہ کرکے اس محاذ پراپنی کامیابی کا دعویٰ بھی کیا۔یوگی نے کہا کہ گذشتہ دنوں جب مذہبی تہواروں کے موقع پر دیگر کئی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہو رہے تھے اس وقت بھی اتر پردیش میں کوئی فساد نہیں ہوا۔لیکن اس کے ساتھ ہی یوگی نے اپنے دور اقتدار کا موازنہ اکھیلیش کے دور اقتدار سے کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سن 2012سے سن2017کے درمیان سات سو سے زیادہ فسادات ہوئے،لیکن ان کے گذشتہ دور اقتدار میں کوئی فساد نہیں ہوا۔لیکن یوگی نے اس بات پر اظہار فخر بھی کیا کہ ان کے دور میں رام نومی کا تہوار بہت شاندار طریقے سے منایا گیا۔اس پر فخر کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ جس طرح رمضان،جمعہتہ الوداع اور عیدا لفطر کی نمازیں سڑک پر نہ ہونے کا ذکر یوگی نے کیا اس سے یوگی کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یوگی نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کا ذکر بھی فخر کے ساتھ کیا۔ دوسری طرف ایودھیا میں رام مندر اور وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کمپلیکس کی تزئین کاری کا ذکر بھی فخر سے کیا گیا۔حالانکہ ان میں سے کسی کام کا بھی تعلق بہتر حکمرانی سے نہیں ہے۔غیر قانونی ذبیحہ پر پابندی کا ذکر بھی یوگی نے کیا۔یقینی طور پر اسے بہتر قدم قرار دیا جا سکتا ہے،لیکن اسے جس طرح پیش کیا گیا اس کے پس پشت منافقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر دھامی نے ریاست میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ فرقہ پرست طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ان کی حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے
حالانکہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں۔ہندوؤں میں مختلف علاقوں میں پائی جانے والی رسموں کو دیکھتے ہوئے قومی سطح پر یا کسی ایسی ریاست میں کہ جہاں مختلف رسم و رواج کو ماننے والے موجود ہوں یکساں سول کوڈ کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہیں ہے،لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار اس معاملے کو بھی ہمیشہ مسلمانوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور مسلم پرسنل لاء کو نشانہ بنانے کی بد نیتی سے اٹھاتا رہا ہے۔
پروگرام میں سب سے زیادہ زہرہ آلود تقریر آسام کے وزیر اعلیٰ کی تھی۔اپنی تقریر میں ہیمنت بسوا نے نے اسلامی مدارس کے خلاف دل کھول کر زہر اگلا،اور کہا کہ،جب تک یہ لفظ باقی رہیگااس وقت تک کوئی بچہ نہ تو ڈاکٹر نہ ہی انجینئیر بن پائیگا۔یہ بات باعث حیرت ہے کہ ہیمنت بسوا کو مسلم بچوں کے ڈاکٹر اور انجینئیر بننے کی بھی فکر ہے،لیکن ان کے علم میں شائد یہ بات نہ ہو کہ بی جے پی کے سئینئر لیڈر اور مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہی ہوئی ہے۔جب مدرسے کا ایک طالبعلم ملک کی سیاست میں اتنے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے اور کامیاب سیاستداں بن سکتا ہے تو ڈاکٹر اور انجینئر کیوں نہیں بن سکتا۔ہیمنت بسوا اگر تھوڑا بہت پڑھ لیتے اور مدارس کے کامیاب طلباء کے تعلق سے جانکاری جمع کر لیتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ مدارس کے طلباء نے بھی زندگی کے مختلف میدانوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں،اوراپنی محنت و لگن سے آئی اے ایس جیسے مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔لیکن کیونکہ بسوا کا مقصد مسلمان طلباء کو ڈاکٹر و انجینئر بنتے دیکھنا نہیں بلکہ مذہبی منافرت کے اپنے جنون میں مدارس کو نشانہ بنانا ہے اس لیے انھوں نے مدارس کو ختم کرنے کی بات کہی۔اقتدار کے گھمنڈ اور نشے کی یہ بدترین مثال ہے۔ ہیمنت نے یہ بھی کہا کہ آسام میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد حکومت نے مذہبی تعلیم پر پیسہ خرچ کرنا بند کر دیا۔ظاہر ہے مذہبی تعلیم سے ان کی مراد اسلامی مدارس میں دی جانے والی تعلیم ہی تھی۔بسوا نے مدارس میں بچوں کو داخل کرانے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی قرار دیا۔یہ بیان سراسر ہندوستان کے آئین کے بھی خلاف ہے کہ جو ملک کے ہر شہری کو اپنے عقائد کے مطابق تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔حالانکہ نفرتی ٹولے کی زبان سے حقوق انسانی کی بات سننا یا ان سے آئین کے مطابق کسی بات کی توقع کرنا لا حاصل ہی ہے۔اس لیے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک سنگھ کا ایجنڈہ ہی قانون و آئین ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھگوا طاقتیں روز آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر پر تشدد کارروائیوں میں سرگرم نظر نہ آتیں۔
اپنی تقریر میں بسوا نے کہا کہ جسے قرآن پڑھانا ہے اپنے گھر میں پڑھائے،لیکن سوال یہ ہے کہ پھر گیتا کو عام اسکولوں میں اور غیر مذہب کے طلباء میں پڑھانے کی کوششیں کیوں ہو رہی ہیں؟جبکہ مدارس میں صرف مسلمانوں کو ہی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔آسام حکومت کسی مدرسے کو سرکاری گرانٹ نہیں دے رہی تو نہ دے،لیکن انھیں بند کرنے کا فرمان جاری نہیں کیا جا سکتا۔یہ کسی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔بسوا نے یہ بھی کہا کہ اس سرزمین پر رہنے والے تمام مسلمان دراصل ہندو ہیں،لیکن یہ ہیمنت بسوا کی غلط فہمی ہی ہے۔ہندوستان کی تمام مسلم آبادی تبدیلی مذہب کرکے مسلمان بہرحال نہیں ہوئی ہے۔لیکن یہ ایک الگ بحث ہے جسے اس وقت چھیڑنا مناسب نہیں۔بسوا کے مطابق اگر کوئی مسلمان بچہ قابل تعریف کام کرتا ہے اس کا سہرا اس کے ہندو ماضی کو جاتا ہے۔بسوا کی اس بات کے جواب میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ،’جواب جاہلاں باشد خموشی’۔
بسوا اور دیگر بی جے پی وزرائے اعلیٰ کے بیانات کو کئی مسلم تنظیموں نے ’اسلاموفوبیا‘ سے تعبیر کیا ہے،اور یہ درست بھی ہے۔دراصل ہندوتو وادی طاقتیں اس اسلاموفوبیا کی اس حد تک شکار ہو چکی ہیں کہ اس کے سبب ملک کی حقیقی ترقی کا ایجنڈہ ان کے نزدیک غیر اہم ہو چکا ہے۔ملک کے حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے انھیں ہندوتو کی افیم دی جا رہی ہے۔ہندو راشٹر کے قیام کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ملک کو فرقہ وارانہ منافرت کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔اس بات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ پڑوسی ملک سرلنکا کو اسی پالیسی کے سبب آج کن حالات سے گزرنا پر رہا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330