تاریخی شہر پیلی بھیت کے رہائشی شیخ رحیم بخش کے یہاں سن 1883 میں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام عبدالمجید رکھا گیا۔۔ یہی عبدالمجید آگے چل کر ہمدرد دواخانہ کے بانی بنے۔ آٹھ برس پیلی بھیت میں رہائش کے بعد شیخ رحیم بخش دہلی کے علاقے حوض قاضی منتقل ہو گئے۔ تعليم سے فراغت پر حکیم حافظ حاجی عبدالمجید بانی دواخانہ ہمدرد کا نکاح رابعہ بیگم سے ہوا ۔ آپ انتہائی نیک، اطاعت اور خدمت گزار، نماز و روزہ کی پابند، پردہ کی پابند، محنتی، وفاشعاراور معاملہ فہم خاتون تھیں۔۔
حکیم عبدالمجید ایک مستقل مزاج شخص تھے۔ آپ کو ادویات کے خواص میں خاص دلچسپی تھی۔ شوق اور مہارت کے باعث انھوں نے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دواخانے میں ملازمت کرلی۔ اس عرصے میں طب کامطالعہ بڑی گہرائی اور طب کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کیا۔ آپ کو جڑی بوٹیوں سے گہرا شغف تھا اور ان کی پہچان کا ملکہ حاصل تھا آخر کار انہوں نے نباتات کے میدان میں اترنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ بیماریوں کی شفاء کے لیے ہندوستان بھر سے جڑی بوٹیاں حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ بقول حکیم محمد سعید ’’آپ ایک بلند پایہ نبض شناس اور جڑی بوٹیوں کے ماہر بهى۔
حکیم عبدالمجید بڑی محنت سے حکیم اجمل خان کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ انھیں احساس ہوا کہ حکیم اجمل ان کی دیانت پر شک کرنے لگے ہیں۔ غیرت فطرت نے یہ شبہ برداشت نہ کیا اور اس عظیم انسان نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ 1904 میں اپنے سسر سے کچھ پیسے لے کر ہمدرد کی بنیاد ڈالی اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی۔ ہمدرد دکان کو چلانے کے لیے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع کیں اور ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔ ہمدرد دواخانے کی پہلی دوا ’’حب مقوی معدہ‘‘ تھی۔ رابعہ بیگم اور ان کی بہن فاطمہ بیگم دونوں حکیم عبدالمجید کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور سل بٹے سے نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتی تھیں۔
حوض قاضی سے ہمدرد کی منتقلی دہلی کے لال کنویں میں ایک دکان میں ہوئی اور جب اس کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی تو اس کو لال کنویں سے اس کی ابتدائی جگہ منتقل کرنا پڑا, طب مشرق کا شہرہ آفاق شربت روح افزا بلا شبہ نہ صرف بر صغیر ہند و پاک کی ثقافت کی پہچان بن چکا ہے بلکہ اس کی سينکڑوں نقلیں بھی تیار کی گئیں اور اس کے بعد ہی مختلف دواخانوں نے اس جيسے کئ لال شربت ملتے جلتے ناموں سے تیار کرنا شروع کئے۔۔آج بھی روح افزا انڈیا اور پاکستان کی ہمدرد لیبارٹریز میں انتہائ بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا ہے اور تمام دنیا میں ايکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
حکیم عبدالمجید کے همدرد دوا خانے میں حکیم استاد حسن خان بھی طبیب اور ادویہ سازی کے شعبے سے وابستہ تھے۔ان کا تعلق اتر پردیش کے شہر سہارنپور سے تھا لیکن تلاش معاش میں وہ دہلی آبسے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی چلے گئے۔ سن 2003 تک وہ کراچی میں مقیم تھے اور ان کی عمر غالبا” 120 سال ہوگی۔ انہوں نے ہی ایک انٹر ویو میں اپنی یادوں کے اوراق پلٹتے ہوئے روح افزا کی تیاری کی داستان سنائ تھی۔ یہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے روح افزا کا پہلا نسخہ ترتیب دیا تھا۔۔یہ سن 1907 کی بات ہے۔اس زمانے میں مختلف پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کے شربت انفرادی طور پر دستیاب تھے۔ مثلا” شربت گلاب، شربت، صندل، شربت انار، شربت سنگترہ، شربت کیوڑہ، وغیرہ وغیرہ جو اپنی تاثیر اور ذائقے کے لہٰز سے بھی مختلف تھے۔۔ ہمدرد دوا خانہ کے بانی چاہتے تھے کہ پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر ایک ایسا بے نظیر و بے مثال نسخہ ترتیب دیا جائے جو ذائقے اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہو اور ایسا معتدل ہو کہ بچے سے بوڑھا تک ہر مزاج کا شخص اس کو استعمال کر سکے یہیں سے روح افزا کی تیاری پر کام شروع ہوا۔۔ حکیم استاد حسن خان نے اپنی تمام حکمت اور خواص جڑی بوٹیاں کا تجربہ روح افزا کے نسخہ و ترکیب میں سمو دیا اگر صرف روح افزا کی تیاری پر ہی ان کو استاد کے لقب سے نوازا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔،لیکن کیسی افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ یہ شخص گمنامی کی زندگی بسر کرگیا ورنہ بجا طور پر تمغہ حسن کار کردگی کا مستحق تھا۔
ہمدرد وقف دوا خانہ و لیبارٹریز کی ویب سائٹ پر ان کا تعارف بحیثیت روح افزا کے اولین نسخہ ساز کی حیثیت سے درج ہے۔ روح افزا میں شامل چیدہ چیدہ اجزا اپنی تاثیر میں بے مثل تھے جڑی بوٹیوں میں حکیم صاحب نے تخم خرفہ،منقہ،کاسنی،نیلوفر، گائوزبان،ہرا دھنیا وغیرہ، پھلوں میں سنگترہ، انناس، گاجر، تربوز، وغیرہ۔ سبزیوں میں سے پالک، پودینہ، ہرا کدو، وغیرہ۔۔ پھولوں میں، گلاب، کیوڑہ،لیموں اور نارنگی کے پھولوں کا رس،، خوشبو اور ٹھنڈک میں بے مثال خس اور صندل کی لکڑی وغیرہ ان تمام اجزا اور عرقیات کو ایک خاص ترتیب سے ملا کر جو شربت تیار ہوا وہ بلاشبہ روح افزا کہلانے کا ہی مستحق تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے طب مشرق پر چھا گیا اور آج تقریبا” 110 سال گزرنے کے باوجود اس کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی ہے۔