راہل گاندھی کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ کی طرح ایک اور خبر گودی میڈیا پر نظر نہیں آئی اور وہ ہے معروف صحافی رعنا ایوب کو ملنے والےایک عالمی باوقار ایوارڈ کی خبر۔ امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کی نمائندہ رعنا ایوب کو ہندستان کی مرکزی حکومت اور ہندو قوم پرستی کی تنقید کے لئے ‘اوور سیز پریس کلب کے فلورا لیوز ایوارڈ’ سے نوازہ گیا۔
رعنا ایوب اپنی بے باک رپورٹنگ کے سبب مودی حکومت کی نظروں میں کھٹکتی رہتی ہیں۔ رعنا ایوب ہندستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر کھل کر لکھتی ہیں۔ انہوں نے گجرات فسادت کے تعلق سے ‘گجرات فائلس’ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ جس میں انہوں نے ثابت کیا ہیکہ مسلم کش فسادات میں اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ،امت شاہ سمیت انکی کابینہ کے کئی وزیر اور بی جے پی ، بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر ملوث تھے۔ انہوں نے میتھلی کے فرضی نام سے ایک فلم ساز کی حیثیت سے نریندر مودی، اور دیگر لیڈروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور فسادات کے تعلق سے حقائق یکجا کئے تھے۔ اس وقت وہ ‘تہلکہ ‘ سے منسلک تھیں۔
رعنا ایوب کو انکی بے باک رپورٹنگ کے لئے پہلے بھی کئی عالمی انعامات سے نوازہ جا چکا ہے۔ رعنا ایوب کا کہنا ہیکہ ہندستان کی مودی حکومت صحافیوں کو ہراساں کرتی ہے۔انہیں انکے ایک ٹویٹ کے سلسلے میں جیل جانے کا خطرا ہے۔ کووڈ نائنٹین نے دیہی ہندستان کو تباہ کرکے رکھ دیا لیکن مودی اور انکے وزرا اپنی نا اہلی اور ناکامیوں کی پردہ پوشی میں لگے رہے۔ رعنا کہتی ہیں کہ دنیا ہندستان کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا گڑھ بن چکا ہے۔ جہاں احتجاج اور مخالفت کی ہر آواز کو کچلا جارہا ہے۔ مجھے اپنے دوستوں عمر خالد، سفورہ زرگر اور صدیقی کپن کا خیال آتا ہے ۔دنیا کو جاگ جانا چاہئے اور بولنا چاہئے۔