رمضان المبارک شروع ہوتے ہی فروٹ مارکیٹ میں اچانک اچھال آجاتا ہے ۔ایک دن پہلے تک تیس روپئے درجن فروخت ہونے والے کیلے کے دام رمضان میں دوگنے ہوگئے۔ ایسا ہی معاملہ دیگر پھلوں کا بھی ہے۔ مہنگائی نے غریب عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔
پھلوں کے بیوپاریوں کا کہنا ہیکہ انھیں مال مہنگا مل رہا ہے اس لیے اونچے دام میں فروخت کرنا ان کی مجبوری ہے۔ دوسری طرف مصنوعی طریقے سے پھلوں کو پکانے کا چلن بھی بڑھتا جارہا ہے۔ زرعی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار پانچ کے فوڈسیفٹی ایکٹ کی وجہ سےپھلوں کو تیار کرنے میں کاربائیڈ یا انجکشن کا استعمال نہیں ہورہا ہے،بیوپاری طبقہ بھی اس بات سے انکار کررہا ہے کہ پھلوں کو تیار کرنے کے لیے کوئی مصنوعی طریقہ اختیار کیا جارہا ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ بے موسم پھل کیسے مارکیٹ میں آرہے ہیں۔
زرعی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہیکہ بے موسم کے پھل کھانے سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ کیونکہکوئی بھی پھل جب اسکے موسم میں کھیا جاتا ہے تو اسکی تاثیر کچھ اور ہوتی ہے اور وہ انسانی صحت کے لئے نقصان دہ نہیں لیکن بے موسم کے پھل کی تاثیر انسانی بدن کو بیماری میں مبتلا کرسکتی ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہیکہ مغربی ملکوں میں تہواروں کے موقع پر ضروری اشیا کو سستے داموں پر فروخت کرنے کا چلن ہے تاکہ غریب سے غریب انسان بھی تہوار کو خوشی کے ساتھ منا سکے لیکن ایشیائی ملکوں میں تہوار کے موقع پر ضروری اشیا کو مہنگے دام پر فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا چلن ہے۔
مجموعی طور پر رمضان جہاں نیکیاں بٹورنے اور اپنے رب کو راضی کرنے کا مہینہ ہے وہی یہ مہینہ کسانوں، تاجروں، بیوپاریوں اور صنعتکاروں کے لیے سیزن کہلاتا ہے اور سیزن میں کوئی چیز سستی نہیں ملتی۔
رپورٹ۔شیخ اظہر الدین۔اورنگ آباد