qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

ذاتی مخاصمت پر مبنی سیاست۔۔تحریر سراج نقوی

اتر پردیش کانگریس کے اہم لیڈ ر اور رامپور نواب گھرانے سے تعلق رکھنے والے نواب کاظم علی نے کہا ہے کہ وہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی امیدوار کی حمایت کرینگے۔کاظم علی خان اس بات سے ناراض ہیں کہ ان کی پارٹی نے لوک سبھا سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا اور اعظم خان کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا۔اعظم خان سے ذاتی سیاسی مخاصمت کی بنا پر کا ظم علی خان اور ان کا خاندان اعظم خان کے اس حد تک خلاف ہے کہ بی جے پی امیدوار کی حمایت کرکے سماجوادی لیڈر کا کھیل بگاڑنا چاہتا ہے۔
دراصل اتر پردیش کی دو لوک سبھا سیٹوں کے لیے بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان شہ اور مات کا کھیل جاری ہے۔رامپور اور اعظم گڑھ کی لوک سبھا سیٹوں کے لیے ضمنی الیکشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔یہ دونوں ہی سیٹیں اب تک سماجوادی پارٹی کے پا س تھیں۔اعظم گڑھ سیٹ سے سماجوادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو رکن پارلیمنٹ تھے۔جبکہ رامپو ر سیٹ سے اعظم خان نمائیندگی کر رہے تھے،جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوئے ہیں۔چند ماہ قبل ہوئے اسمبلی انتخابات میں مذکورہ دونوں ہی لیڈر وں نے بھی حصہ لیا تھا۔شائد اس کا سبب یہ تھا کہ سماجوادی پارٹی کو امید تھی کہ وہ ریاست میں اکثریت حاصل کرنے اور حکومت سازی کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔اسی خیال کے تحت مذکورہ دونوں قدآور لیڈر اسمبلی الیکشن میں بھی اترے تاکہ پارٹی کی جیت کو یقینی بنایا جا سکے،لیکن سماجوادی پارٹی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔جبکہ مذکورہ دونوں ہی لیڈ ر اسمبلی الیکشن میں بھی جیت گئے۔اب سوال یہ تھا کہ لوک سبھا کی رکنیت کو برقرار رکھا جائے یا اسمبلی میں بیٹھ کر ہی آئیندہ کی حکمت عملی طے کی جائے۔فیصلہ اسمبلی رکنیت بر قرار رکھنے اور لوک سبھا کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا کیا گیا۔

اس طرح مذکورہ دونوں سیٹیں خالی ہو گئیں اور اب یہاں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رامپور سے بی جے پی کے امیدوار بنائے گئے گھن شیام سنگھ لودھی بھی کسی زمانے میں اعظم خان کے قریبی رہے ہیں۔اعظم خان کا کہنا ہے کہ جب لودھی سماجوادی پارٹی میں تھے تو اعظم نے نہ صرف یہ کہ ٹکٹ دلانے میں ان کی مدد کی تھی بلکہ ہیلی کاپٹر لکھنؤ بھیج کر ان کا ٹکٹ منگوایا تھا. اس لیے کہ نامزدگی کا وقت ختم ہو رہا تھا۔سماجوادی پارٹی میں رہتے ہوئے لودھی کو اعظم خان کا قریبی مانا جاتا تھا،لیکن اب لودھی نے بی جے پی کا دامن تھام لیا ہے،اور پارٹی کے ٹکٹ پر رامپور سے لوک سبھا کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔کانگریس لیڈر نواب کاظم علی خان کا کہنا ہے کہ وہ کانگریس میں ہی رہینگے اور پارٹی چھوڑنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے،لیکن جہاں تک موجودہ لوک سبھا الیکشن کا سوال ہے تو وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کے لیے آزاد ہیں، اور بی جے پی امیدوار گھن شیام لودھی کی حمایت کرینگے۔
کاظم علی خان کے اس موقف کا اصل سبب رامپور کے نواب گھرانے اور اعظم خان کے درمیا ن برسوں سے جاری سیاسی رقابت ہے۔کاظم علی خان اور ان کے حامی اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اعظم خاں نے سماجوادی پارٹی کے دور اقتدار میں اور اپنے وزیر رہتے ہوئے نواب خاندان کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔اعظم خان کے کئی فیصلوں کو راست طور پر نواب خاندان کے خلاف ذاتی مخاصمت پر مبنی فیصلوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔راقم اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ اس الزام میں کتنی صداقت ہے،لیکن یہ بات بہرحال ناقابل فہم ہے کہ موجودہ حالات میں ماضی کی کسی ذاتی مخاصمت کے سبب کاظم علی خان یا ان کا گھرانا صرف اعظم خان کو شکست دینے کے لیے بی جے پی کی حمایت پر آمادہ ہو جائے۔

۔کاظم علی خان کہتے ہیں کہ وہ خود اس سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے،لیکن ان کی پارٹی قیادت کو کچھ لوگوں نے گمراہ کیا۔جس کے سبب پارٹی نے اپنا کوئی بھی امیدوار نہ اتارنے کا فیصلہ کیا۔ظاہر ہے کہ کانگریس کے اس فیصلے کا سبب بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم کو روکنا تھا اور کانگریس و سماجوادی پارٹی میں خوشگوار رشتے نہ ہونے کے باوجود اس م قصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کانگریس نے اعظم خان کو ’واک اوور‘ دینے کا فیصلہ کیا۔اب کاظم علی خان کہہ رہے ہیں کہ وہ کانگریس میں ہی رہینگے لیکن اس الیکشن میں کسی کو بھی ووٹ دینے کے لیے آزاد ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب ان کی پارٹی اعظم خان کو بالواسطہ حمایت دے رہی ہے تو ان کے الگ راہ اختیار کرنے کا کیا جواز ہے؟نواب خاندان کی اعظم خان سے ناراضگی جائز ہو سکتی ہے۔اعظم کے وزیر رہتے ہوئے انھیں مبینہ طور پر جو نقصان اٹھانے پڑے اسے دیکھتے ہوئے اعظم خان سے سیاسی چپقلش کا جواز ہو سکتا ہے،لیکن موجودہ حالات میں ایک بڑے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کاظم علی خان کے موقف کو درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔دوسری طرف خود اعظم خان کو بھی اپنے موقف میں لچیلاپن پیدا کرنے اور نواب خاندان سے پرانی رنجش کو درکنار کرتے ہوئے رشتے استوارکرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

کاظم علی خان نے اپنے موقف کے تعلق سے کانگریس کی جنرل سکریٹری اور اتر پردیش معاملوں کی انچارج پرینکا گاندھی کو جو خط لکھا ہے اس میں انھوں نے اپنے موقف کے لیے معافی بھی مانگی ہے۔ کاظم علی خان نے کہا ہے کہ وہ کانگریس کے ٹکٹ پررامپور سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے پارٹی قیادت کو گمراہ کیااور کانگریس نے کوئی امیدوار نہیں اتارا۔کاظم علی خان نے وضاحت کی کہ میں اب بھی کانگریس سے وابستہ ہوں اور پارٹی کے ساتھ رہونگا،لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اپنی پسند کے کسی بھی امیدوار کی حمایت کرنے اور اسے ووٹ دینے کے لیے آزاد ہیں۔کاظم علی خان کے اس موقف کو غلط ٹھہرانے کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہے۔اعظم خان سے ان کی سیاسی رنجش پر بھی کسی کو کچھ کہنے کا اخلاقی حق نہیں ہے،لیکن اسی طرح یہ سوال بھی درست ہے کہ اعظم خان کو ذاتی طور پر ناپسند کرنے کے باوجود کسی بڑے مقصد کو دیکھتے ہوئے ان کے تئیں یہ رویہ اپنانا اور بی جے پی سے نظریاتی مخالفت کے باوجود اس کے امیدوار کی حمایت کرنا کیا اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دینا نہیں ہے۔حالانکہ سیاست میں ضمیر جیسا لفظ اب اپنی معنویت کھو چکا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بی جے پی امیدوار گھن شیام سنگھ لودھی نے کچھ دن پہلے ہی کاظم علی خان کے گھر جاکر ان سے اور ان کے قریبی ساتھیوں سے ملاقات کی تھی۔ظاہر ہے بی جے پی اور خود لودھی ان پر ڈورے ڈال رہے تھے۔اب کاظم علی خان نے لودھی کو حمایت دینے کا اعلان کرکے یہ واضح کر دیا ہے کہ اعظم خان سے ان کی سیاسی رنجش اور مخاصمت کا سلسلہ ختم ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کانگریس کے موقف سے الگ وہ اپنی سیاسی شطرنج پر اپنے مہرے چلنے کے لیے آزاد ہیں۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330

Related posts

تراویح کی نماز۔نیو یارک اور مراد آباد کا فرق

qaumikhabrein

امروہا۔ محفل مدح اہل بیت۔ شعرا کا منظوم نزرانہ عقیدت۔

qaumikhabrein

برڈ فلو سے انسان کے متاثر ہونے کا پہلا کیس چن میں ملا۔

qaumikhabrein

Leave a Comment