تاج محل ، لال قلعہ اور دہلی کی جامع مسجد قدیم مندر ہیں۔ اب یہ دعویٰ پرانا ہو گیا ہے۔ بات ہندستان کی تاریخی عمارتوں سے نکل کر مسیحی پیشوا حضرت عیسیٰ تک پہونچ گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ سناتنی ہندو تھے۔ ماتھے پر تلک لگاتے تھے۔ وہ دس برس تک ہندستان میں رہے تھے۔ انہوں نے خفیہ طریقے سے تین برس پوری میں گزارے تھے۔ اس دوران وہ شنکراچاریہ کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اوڈیشہ کے تاریخی شہر پوری میں قائم گووردھن مٹھ کے شنکر آچاریہ نشچلا نند سرسوتی جی کا دعویٰ ہے۔
شنکر آچاریہ نشچلا نند سرسوتی رائے پور دورے کے موقع پر صحافیوں سے باتیں کررہے تھے۔ صحافیوں سے گفتگو کے دوران ہی انہوں نے یہ تاریخی انکشاف کیا کہ عیسیٰ مسیح ہندو تھے اور ہندؤں کے ویشنو فرقہ کے پیروکار تھے. ویشنو فرقہ کے پیروکار وشنو جی کو بھگوان ماننے ہیں اور انکی پوجا کرتے ہیں۔ جناب عیسیٰ ماتھے پر تلک لگاتے تھے۔ شنکر آچاریہ جی کا یہ بھی دعویٰ ہیکہ غیر ملکوں میں حضرت عیسیٰ کے ایسے مجسمے موجود ہیں جن پر انکے ماتھے پر ویسا ہی مخصوص تلک لگا ہوا ہے جیسا وشنو جی کے پیروکار اپنے ماتھے پر لگاتے ہیں۔
جناب عیسیٰ کے بارے میں شنکر آچاریہ کے دعوے کے بعد اب ملک میں آباد عیسائیوں کو سکون کی سانس لینی چاہئے۔ آج کے بعد نہ انکے اوپر حملے ہونگے اور نہ انکی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جائےگا۔ نہ انکے اوپر لوگوں کو جبری طور سے عیسائی بنانے کے الزامات لگیں گے۔۔ کیونکہ وہ معاشرے کے پسماندہ اور دبے کچلے لوگوں کو عیسائی نہیں بنا رہے ہہیں بلکہ وشنو جی کا پیروکار بنا رہے ہیں۔ کیونکہ بقول شنکر آچاریہ حضرت عیسیٰ خود بھی ہندو تھے اور وشنو جی کے پیروکار تھے۔
حضرت عیسیٰ کے بارے میں شنکر آچاریہ کے دعوے پر پوری سمیت مختلف شہروں کے پادریوں نے سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دعوے کو جھوٹ اور خیالی بتایا ہے۔ مختلف گرجا گھروں کے پادریوں کا کہنا ہیکہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں گمراہ کن باتیں کہکر تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔۔