qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

صدر جمہوریہ کی ”مایوسی اور خوف“حقیقت یا جانبداری؟۔۔ سراج نقوی

عزّت ماًب صدر جمہوریہ نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو لکھے گئے ایک مضمون میں کولکاتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج میں ایک خاتون ڈاکٹر کے عصمت دری اور بہیمانہ قتل پر اپنے رد عمل میں جن جذبات کا اظہارکیا ہے وہ قطعی درست ہیں اور ہر ہندوستانی شہری جس کے دل میں انسانیت کے لیے رحم اور خواتین کے لیے احترام ہے وہ اس سے اتفاق کریگا۔

اپنے رد عمل میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے کہا ہے کہ وہ کولکاتہ کے واقعے سے مایوس اور خوفزدہ ہیں

صدر جمہوریہ نے بجا طور پر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے تعلق سے بیدار ہو،اور اس ذہنیت کا مقابلہ کرے جو خواتین کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔صدر جمہوریہ نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی مہذب معاشرہ بیٹیوں  اور بہنوں

کے ساتھ اس طرح کے مظالم کی اجازت نہیں دے سکتا۔اس پر ملک کو اپنا غصہ ضرور ظاہر کرنا چاہیے،اور میں بھی اس پر ناراض ہوں َ۔ بحیثیت ملک کی آئینی سربراہ اور بحیثیت ایک خاتون بھی صدر مرمو نے جو کچھ کہا اس سے ہر ہندوستانی شہری اتفاق کریگا،لیکن اصل بات یہ ہے کہ خواتین کے تعلق سے ہونے والے جرم کو صرف کولکاتہ کی خاتون ڈاکٹر کے وحشیانہ زنا بالجبر اور قتل کے تناظر میں ہی کیوں دیکھا جائے

اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل ہی اتراکھنڈ میں بھی ایک خاتون نرس کو زنا بالجبر کے بعد قتل کر دیا گیا تھا،لیکن اس معاملے پر نہ تو ملک کے انصاف پسندوں اورحقوق نسواں کے طرفداروں کا احتجاج سامنے آیا اور نہ ہی صدر جمہوریہ نے ہی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی حکومت ہے جو این ڈی اے مخالف محاذ کا حصہ ہیں اور بی جے پی کو شکست دیکر تیسری مرتبہ ریاست کی وزیر اعلیٰ بنی ہیں۔دوسری بات یہ کہ زنا بالجبر کی شکار خاتون ڈاکٹر کا تعلق اکثریتی طبقے سے تھا۔جبکہ دوسری طرف اتراکھنڈ میں اسی ظلم کے نتیجے میں اپنی جان گنوانے والی نرس اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔اب دونوں معاملوں میں صدر جمہوریہ اور عوام کے رد عمل کے پس پشت کسی خاص نیت کا دخل ہے یا نہیں، یہ تو قطعی نہیں کہا جا سکتا،لیکن ایک معاملے پر یکسر خاموشی اور دوسرے پر سخت رد عمل کا اظہار  سوال تو بہرحال کھڑے کرتا ہے۔

ان دونوں معاملوں کو چھوڑ دیں اور اس پر کوئی سوال نہ بھی کھڑے کریں تب بھی کئی ایسے موضوعات ہیں جن کے تعلق سے صدر جمہوریہ کی خاموشی دکھ  پہنچاتی ہے اور ملک کے مظلوم و استحصال کے شکار طبقات میں مایوسی پیدا کرتی ہے۔صدر جمہوریہ کولکاتہ زنا بالجبر کے معاملے پر خوف اور مایوسی کی شکار ہیں،یہ بات قابل فہم اور انسانی ہمدردی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔لیکن ایسی ہی انسانی ہمدردی کا اظہار ملک بھر میں مسلمانوں کے گھروں پر معمولی الزامات کے تحت بلڈوزر چلانے پر بھی کیا جانا چاہیے۔کیا یہ بات ہماری آئینی سربراہ کو خوف اور مایوسی میں مبتلا نہیں کرتی کہ جمہوری ڈھنگ سے منتخب حکومتیں آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقلیتی طبقے کے ملزمان کے تعلق سے خود ہی فیصلے کرکے ان کے مکانات کو بلڈوزروں سے زمیں دوز کر رہی ہیں اور اس طرح عدلیہ کے اختیارات بھی غصب کر رہی ہیں۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایک سینئر نوکر شاہ اور ضلع مجسٹریٹ ایک معاملے میں باقاعدہ اور انتہائی بے غیرتی سے یہ کہتا ہے کہ  وہ صرف مسلمانوں کے گھروں پر ہلڈوزر چلائیگا،اور ایسے ہی معاملات میں ہندوؤں کے گھروں کو منہدم نہیں کیا جائیگا۔کیا یہ بات صدر جمہوریہ کے خوف اور مایوسی کا سبب نہیں ہونی چاہیے کہ ضلع مجسٹریٹ جیسے اعلیٰ عہدے پر بیٹھے ہوئے کسی شخص کے ایسے قانون شکن بیان پر ریاستی حکومت مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہے اور اس طرح غیر اعلانیہ طور پر یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ نوکر شاہوں کی ایسی کارروائیوں کی حمایت میں کھڑی ہے؟

کیا یہ بات خوف  اور مایوسی پیدا نہیں کرتی کہ ایک سنت نما شرپسند تمام عالم انسانیت کے لیے باعث احترام محمد مصطفیﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور اس کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ملک کی آئینی سربراہ کو اگر کسی ریاستی حکومت کی اس غیر آئینی کارروائی پر خوف و مایوسی کا احساس نہیں ہوتا تو ان کے اس عمل کو غیر جانبداری تو بہرحال نہیں کہا جا سکتا

۔صدر جمہوریہ ملک کے آئین سے کھلواڑ کرنے والے وزیر اعلیٰ یا ریاستی انتظامیہ کی اگر معمولی سی سرزنش بھی کر دیتیں تو گھر سے بے گھر ہو جانے والے لوگوں کے گھر بھلے ہی اس کے نتیجے میں نہ بنتے لیکن ملک کی مظلوم اقلیت کویہ احساس تو ہوتا کہ صدر جمہوریہ اس کے دکھ درد کو بھی اسی شدّت سے محسوس کرتی ہیں کہ جس شدّت سے انھیں کولکاتہ کی مظلوم خاتون ڈاکٹر کے درد کا احساس ہے۔صدر جمہوریہ کو اس بات پر بھی خوف یا مایوسی کا احساس نہیں ہوتا کہ اسی ہندوستان کی ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ اپنی تمام قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے خلاف کھل کر اظہار نفرت کرتے ہیں اور حکمراں جماعت سے لیکر مرکزی حکومت حتیٰ کہ وزیر اعظم تک  آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی بکواس پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ملک کے آئین  و قانون کی پامالی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ زباں دراز مذکورہ وزیر اعلیٰ یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف بولتا رہیگا اور کوئی بھی اسے اس بات سے نہیں روک سکتا۔آسام اسمبلی میں دیے گئے بیان میں وزیر اعلیٰ سرما نے کھلے طور پر یہ بھی کہا کہ،”میں ہندوؤں کے حق میں ہر ممکن جانبداری کرونگا اور ہندوؤں کی ہی بات کرونگا،اور مسلمانوں کو آسام پر کبھی قبضہ نہیں کرنے دونگا۔“سرما کا یہ بیان ملک کے آئین اور ایک جمہوری حکومت کی منصبی ذمہ داریوں کی پوری طرح خلاف ورزی ہے اور اس بیان پر ہر سیکولر سوچ رکھنے والے ہندوستانی شہری کو خوف زدہ اور مایوس ہونا چاہیے کہ یہ بیان ملک کے سماجی تانے بانے کو تباہ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے،اور آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حیرت ہے کہ ہماری آئینی سربراہ نے سرما کے اس بیان پر خوف اور افسوس کا اظہار نہیں کیا،جبکہ یہ بیان اشتعال انگیزی کی حدوں سے بھی کہیں آگے جا کر منافرت کی اس انتہا کا ثبوت ہے جو گزشتہ دس برسوں میں اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف منصوبنہ بند طریقے سے پھیلائی جا رہی ہے۔سرما کے اس بیان پر مرکز کی این ڈی اے سرکار میں شامل مبینہ سیکولر پارٹیوں کا کوئی سخت ردعمل سامنے نہ آنابھی افسوسناک ہے۔

صدر جمہوریہ ہندوستان کا آئینی سربراہ ہوتا ہے اور کسی بھی صدر جمہوریہ کی جوابدہی کسی حکومت نہیں بلکہ ملک کے آئین کے تئیں ہوتی ہے۔صدر جمہوریہ نے کولکاتا ریپ معاملے پر جن جذبات کا اظہار کیا وہ ان کے عہدے کے عین مطابق ہے،لیکن ملک کے آئین کی دھجیاں اڑانے والے نوکر شاہوں،

وزرائے اعلیٰ اور سیاست دانوں کی طرف سے اگر ایسے بیان آتے ہیں کہ جو آئین اور قانون کی حکمرانی کی نفی کرتے ہیں تو ان پر بھی صدر جمہوریہ کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔ایسے بیانات پر بھی صدر جمہوریہ کو خوف و مایوسی کا احسا س ہونا چاہیے۔اس لیے کہ اگر آئین کی حکمرانی کو جمہوری ڈھنگ سے منتخب حکمرانوں کے ذریعہ ہی نشانہ بنایا جانے لگے تو یہ واقعی اس لیے باعث خوف و مایوسی ہے کہ

یہ آئین ہمارے ملک کے استحکام اور سا  لمیت کا ضامن ہے اور اسے پامال کرنے والوں کے خلاف غیر جانبدار ہوکرسخت موقف اپنانا ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے کہ جو کسی اعلیٰ آئینی عہدے پر بیٹھا ہوا ہے۔صدر جمہوریہ کا عہدہ تو اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔

naqvisiraj58@gmail.com     Mobile:9811602330    

Related posts

فائیو جی کے معاملے میں جوہی چاؤلہ پر 20 لاکھ کا جرمانہ۔عرضی خارج۔عدالت سے ملی پھٹکار بھی۔

qaumikhabrein

مدراس ہائی کورٹ نے کورونا کی تازہ لہر کے لئے چناؤ کمیشن کو دوشی مانا۔

qaumikhabrein

اف یہ گرمی۔ مہاراشٹر میں آج سے اسکولوں سے تعطیل

qaumikhabrein

Leave a Comment