قرض کے بوجھ سے پاکستان کی کمر ٹوٹی جا رہی ہے لیکن پاکستان کے لیڈروں اور وزیروں کے اللوں تللوں میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے۔ سرکاری اخراجات کم سے کم کرنے کی کوششوں کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے۔مرکزی بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے کل قرضے اور واجبات ستمبر 2022 کے آخر میں 62.5 ٹریلین روپے کی غیر یقینی سطح تک پہنچ چکے تھے۔ یہ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار جی ڈی پی کا 24 فیصد ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، ملک کے کل واجبات، خاص طور پر سرکاری قرضے، ایک سال پہلے کے مقابلے میں 12 ٹریلین روپے یا 23.7 فیصد بڑھ گئے۔گزشتہ سال صرف سرکاری قرضوں میں 9.7 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا جو کہ تمام تر حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث ہوا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق ستمبر 2022 کے آخر تک مجموعی عوامی قرضہ 51.1 ٹریلین روپے تھا۔اکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار مزید قرض لینے کے لئے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے کر چکے ہیں۔ تاکہ روا ں برس کی مجموعی مالیاتی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
شہباز شریف حکومت قرضوں کے حصول کے لیے غیر ملکی کمرشل بینکوں، ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بھی بات چیت کر رہی ہے۔اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا پاکستان پرقرض ایک سال کے اندر 44 فیصد بڑھ کر ستمبر کے آخر تک 1.7 ٹریلین روپے تک پہنچ گیاہے۔وفاقی حکومت کا کل ملکی قرضہ ایک سال میں بڑھ کر 31.4 ٹریلین روپے ہو گیا جو کہ 5 کھرب روپے یا 19 فیصد کا اضافہ ہے۔
ہدف سے کم ٹیکس وصولی، کرنسی کی قدر میں کمی، سود کی بلند شرح، بڑھتے ہوئے اخراجات کے ساتھ ساتھ سرکاری کمپنیوں کو ہونے والے نقصانات اور قرضوں کی بدانتظامی عوامی قرضوں میں اضافے کی اہم وجوہات تھیں۔جسکا نتیجہ یہ ہوا ہیکہ اکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ 75 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔