
پاکستان کی مالی حالت کتنی خستہ ہے اس بات کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاکتا ہے کہ پاکستان پر قرض اور واجب الادا واجبات 50.5 ٹریلین سے تجاوز کرچکے ہیں۔ جاری شدہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 20.7 ٹریلن قرضہ جات اور واجب الادا واجبات کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک ٹریلین دس کھرب کے برابر ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہیکہ اس پر قرض 50.5 ٹریلین سے زیادہ ہو گیا ہے۔

اسٹیٹ بین آف پاکستان کے ذریعے جاری قرضوں کے یہ اعداد و شمار ستمبر 2021 تک کے ہیں۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خاں قرضہ جات کو قومی سلامتی ایشو قرار دے چکے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہیکہ عمران خاں کی موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان کی مالی حالت کتنی دگرگوں ہو چکی ہے۔ گزشتہ 39 ماہ کے دوران قرضہ جات اور واجب الادا واجبات 20.7 ٹریلین زیادہ ہو گئے۔ یعنی پاکستان پر مجموعی قرجہ جات میں عمران کے دور حکومت میں 70 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔جون 2018 میں ایک پاکستانی فرد 144,000 روپئےکا قرضدار تھا جو بڑھ کر ستمبر 2021 میں 235,000 روپئے ہوگیا ہے۔یعنی عمران خاں کے دور اقتدار میں فی کس91,000 روپئے قرض کا اضافہ ہوا۔

۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی غیر ملکی اور گھریلو قرضوں سے کام چلا رہی ہے لیکن اس حد تک آمدنی بڑھانے میں ناکام رہی ہے کہ جہاں قرض کا بوجھ کم ہوسکے۔ جہاں تک عوامی قرض کا معاملہ ہے عمران حکومت گزشتہ کی نواز شریف حکومت سے مختلف نہیں ہے۔عمران کے دو ر میں عوامی قرض میں 16.5 ٹریلین کا اضافہ ہوا جو نواز حکومت کے پانچ برس کے دور کے 165% فیصد کے برابر ہے۔