اتر پردیش میں حال ہی میں دو پارلیمانی سیٹوں کے لیے ہوئے ضمنی الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی شکست نے اپوزیشن کی طاقت پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔واضح رہے کہ یہ دونوں ہی سیٹیں پہلے سماجوادی کے پاس تھیں اور دونوں سے پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت یعنی اعظم گڑھ سے اکھیلیش یادو اور رامپور سے اعظم خان رکن پارلیمنٹ تھے۔گذشتہ اسمبلی الیکشن کے موقع پر ان دونوں نے اسمبلی الیکشن لڑا اور جیت حاصل کی۔دونوں نے اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت اسمبلی میں رہنے اور پارلیمانی سیٹ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔اس طرح ان سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوئے،لیکن حیرت انگیز طور پر سماجوادی پارٹی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔یہ بات فی الحال بے معنی ہے کہ بی جے پی کی اس جیت کے پس پشت عوامی حمایت تھی یا کوئی اور سبب۔ہندوتو کی راہ پر رواں دواں یہ پارٹی کس طرح ہر حال میں اپنی شکست کو بھی جیت میں بدلنے کی تکڑم میں ماہر ہے اس کا ثبوت بہار،ہریانہ،مدھیہ پردیش اورکرناٹک سمیت شمال مغرب کی کئی ریاستیں بھی ہیں۔بہرحال جہاں تک اتر پردیش کی مذکورہ پارلیمانی سیٹوں پر بی جے پی کی جیت کا معاملہ ہے تو کم از کم اعظم گڑھ کی سیٹ کے بارے میں یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیٹ بی جے پی نے بی ایس پی کی ‘کارکردگی’ کے نتیجے میں جیتی ہے۔ بی ایس پی امیدوار گڈو جمالی یہاں تیسرے نمبر پر رہے لیکن مایاوتی اس کے باوجود اس لیے بہت خوش ہیں کہ وہ سماجوادی پارٹی کی ٹانگ کھینچنے میں کامیاب رہیں۔اب ان کا منصوبہ ہے کہ اسی طرز پر ریاست بھر میں اور اس کے باہر بھی جہاں جہاں ممکن ہے وہ مسلم ووٹوں کو اسی طرح تقسیم کرکے بی جے پی کی پارلیمانی الیکشن میں جیت کی راہ ہموار کریں،بہ صورت دیگر ای ڈی کا نوٹس انھیں بھی اسی طرح تھمایا جا سکتا ہے جس طرح دیگر اپوزیشن لیڈروں کو تھمایا گیا ہے۔بہرحال مایاوتی کی مجبوری کوسمجھا جا سکتا ہے۔ویسے بھی ان کی منافقت کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ان پر اقلیتوں کو بھروسہ کرنے میں یہی قباحت بھی ہے
۔دوسری طرف سماجوادی پارٹی یا کانگریس کا سیکولر کردار بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔سماجوادی پارٹی کی موجودہ قیادت پر تو اسمبلی الیکشن سے پہلے بھی کئی سوال اٹھے تھے لیکن اس کے باوجود مسلم اقلیت کے پاس کوئی بہتر متبادل نہ ہونے کے سبب اس کا ووٹ سماجوادی پارٹی کو گیا۔جس کے نتیجے میں سماجوادی پارٹی کے ووٹ فیصد میں بھی زبردست اضافہ ہوا،اور اسمبلی میں بھی شکست کے باوجود پارٹی کو اتنی سیٹیں مل گئیں کہ وہ اپوزیشن پارٹی بن گئی
لیکن اسمبلی الیکشن کے بعد سماجوادی پارٹی کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔بات صرف یہ نہیں کہ پارٹی کو رامپور اور اعظم گڑھ کے ضمنی پارلیمانی الیکشن میں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے،بلکہ اکھیلیش کے لیے اب بڑا چیلنج یہ ہے کہ راج بھر جیسے حلیف اور خود پارٹی کے کئی لیڈر اکھیلیش کے طرز عمل سے ناراض نظر آتے ہیں۔ حالانکہ حالیہ راجیہ سبھا الیکشن میں جینت چودھری اور کپل سبّل کو راجیہ سبھا بھیج کر اکھیلیش نے اپنے سیاسی معاملات کو بہتر بنانے کا اشارہ دیا تھا،لیکن کئی لیڈروں کے تازہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سماجوادی پارٹی کی آئیندہ پارلیمانی الیکشن کی راہ مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔بی ایس پی کی بات چھوڑیے کہ اس کا رویہ اپوزیشن اتحاد کے تعلق سے کیا ہے،لیکن یہ بات بہرحال اہم ہے کہ کانگریس نے رامپور کی سیٹ سے اپنے کسی لیڈر کو نہ اتار کر جو ایک پیغام دینے کی کوشش کی تھی اس کا فائدہ بھی سماجوادی پارٹی نہ اٹھا سکی۔جبکہ دوسری طرف کانگریس لیڈراور رامپور میں اعظم خان کے سب سے بڑے حلیف سمجھے جانے والے نواب خاندان کے رکن کاظم علی خان نے کھلے طور پر بی جے پی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔سوال یہ ہے کہ کاظم علی خان کو ہموار کرنے کی کوئی کوشش اسی طرز پر کیوں نہیں کی گئی کہ جیسے بی جے پی اپنے امیدوراروں کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے کرتی ہے؟رامپور میں کاظم علی خاں پر ڈورے ڈالنے کا کام بی جے پی نے کافی پہلے شروع کر دیا تھا۔
بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ بی ایس پی کے طور طریقے صاف اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ درپردہ بی جے پی کو جیت دلانے اور سماجوادی پارٹی و کانگریس کو شکست سے دوچار کرنے کی پالیسی پر کا م کر ہی ہے۔کانگریس پرینکا کی تما تر کوششوں کے باوجود اتر پردیش میں اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے،اور سماجوادی پارٹی کانگریس کو ساتھ لانے پر آمادہ نظر نہیں آْتی۔مسلم پارٹیوں میں سے بیشتر کا ریاست میں زمینی سطح پر کچھ زیادہ اثر نظر نہیں آتا۔ان حالات میں سماجوادی پارٹی کو ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ اپنی صفوں میں کسی بھی طرح کے انتشار کو روکنے کے لیے فعالیت کا مظاہرہ کرتی،لیکن بد قسمتی سے اکھیلیش ضرورت سے زیادہ اعتماد کے سبب اس معاملے میں اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور عوامی مسائل پر حکمرانوں کے خلاف اس جارحانہ انداز کی لڑائی سے گریز کر رہے ہیں کہ جس کی فی الوقت ضرورت ہے۔
پارٹی کے قریبی حلیف راجبھر کئی مرتبہ اشاروں ہی اشاروں میں اکھیلیش کو اے سی کمروں سے نکل کر میدان عمل میں آنے کے لیے کہہ چکے ہیں،راجبھر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر اکھیلیش نے توجہ نہیں دی تو آئیندہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی ریاست کی تمام 80سیٹیں جیت لیگی۔لیکن اکھیلیش نے ان کی کسی بھی بات کانہ تو جواب دینا ضروری سمجھا اور نہ ہی انھیں بلا کر بات کی۔اب سماجوادی پارٹی کی دوسری حلیف جن وادی پارٹی (سوشلسٹ) کے لیڈر سنجے چوہان نے بھی اکھیلیش کو نشانہ بنایا ہے۔سنجے چوہان نے سماجوادی پارٹی کے دو دیگر حلیفوں سوامی پرساد موریہ اور دارا سنگھ چوہان کو استعمال شدہ کارتوس بتا کر اکھیلیش پر طنز کیا ہے کہ انھیں طے کرنا ہوگا کہ ان کارتوسوں کے سہارے آئیندہ پارلیمانی الیکشن کی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ایسے لوگوں کو اہمیت دیکر اور اچھے لوگوں سے کنارہ کشی کرنے کے سبب ہی دو سیٹوں کے لیے ہوئے ضمنی پارلیمانی الیکشن میں پارٹی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔سنجے چوہان اس بات کے شاکی ہیں کہ انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اگر حالات یہی رہے تو وہ 2024تک سماجوادی پارٹی کے ساتھ رہنے کے اپنے فیصلے پر غور کرینگے۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سماجوادی پارٹی کے مذکورہ حلیف لیڈروں کے بیانات واقعی خلوص نیت پر مبنی ہیں یا پھر وہ سیاسی بلیک میلنگ کر رہے ہیں،لیکن ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ اکھیلیش اپنے حلیفوں کے تعلق سے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔حالانکہ جینت چودھری کو راجیہ سبھا بھیج کر انھوں نے درست فیصلہ کیا ہے لیکن باقی حلیفوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے کہ یہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی پارلیمانی الیکشن میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں۔اس وقت جو حالات ہیں ان میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے جس حکمت عملی کی ضرورت ہے اس سے اپوزیشن پارٹیاں کو سوں دور نظر آتی ہیں۔ان پارٹیوں میں سے بی ایس پی کو کم کر دیجیے کہ اس کی توجہ اپنی جیت سے زیادہ بی جے پی کی جیت پر نظر آتی ہے،لیکن باقی اپوزیشن پارٹیوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جیسے ان پارٹیوں نے جنگ میں جانے سے پہلے ہی بی جے پی کے مقابلے میں شکست تسلیم کر لی ہو۔ان پارٹیوں کے درمیان بڑھتا ہوا انتشار تو کم از کم اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330