qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

نیوز ایٹین اردو چینل۔21 برس کی عمر میں موت یا سازش کے تحت قتل

15اگست 2001 کو ای ٹی وی اردو کے طور پر پیدائش۔15اگست2022 کو نیوز ایٹین اردو کی حیثیت سے موت۔عمر محض21 برس۔ موت کا سبب۔ محبت ،اتحاد،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی آواز ‘اردو’ سے دشمنی۔کیانیوز ایٹین اردو چینل ناگہانی موت مرا ہے؟ یا موجودہ حکومت کی اردو کے خاتمے کی وسیع تر سازش کے تحت اسکو قتل کیا گیا ہے۔؟

ابھی عید الفطر سے کچھ پہلے نیوز ایٹین اردو نے لگاتار دوسری مرتبہ سال کے بہترین نیوز چینل کا ای این بی اےایوارڈ حاصل کیا تھا۔ ادھر دہلی میں نیوز ایٹین اردو چینل کو بہترین چینل کا ایوارڈ ملا اور ادھر ممبئی میں نیٹ ورک ایٹین کے ارباب اختیار نے اس اردو چینل کے ‘ڈیتھ وارنٹ’ پر دستخط کئے۔نیوز ایٹین اردو کے خاتمے کی سازش پر بہت منظم انداز میں عمل کیا گیا۔ دھیرے دھیرے اس بین الاقوامی پہچان والے اردو چینل کا حلیہ بگاڑنے کی حرکتیں کی گئیں۔ اسکے مقبول ترین پروگراموں کے اوقات متعدد بار تبدیل کئے گئے اور مقبول ترین پروگراموں کا خاکہ بگاڑا گیا۔

اور یہ سب کچھ اس کے بعد سے شروع ہوا جب ای ٹی وی نیٹ ورک گروپ کے بانی رامو جی راؤ نے اپنی کاروباری مجبوریوں کے تحت تیلگو کے علاوہ بقیہ تمام چینل ریلائنس کے مالک مکیش امبانی کے نیٹ ورک ایٹین کے حوالے کردئے۔ ای ٹی وی اردو چینل، نیوز ایٹین اردو چینل میں تبدیل ہو گیا۔مودی حکومت مرکز کے اقتدار پر پہلے ہی قابض ہو چکی تھی اور اسکی مسلم دشمنی پالیسیاں یکے بادیگرے عملی جامہ پہننے لگی تھیں۔جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا مودی حکومت کی گود میں بیٹھ کر ‘ گودی میڈیا ‘بن چکا تھا۔ اردو چینل کے خاتمے میں داخلی اور خارجی عناصر کا بڑا رول رہا ہے۔ اور یہ دونوں باہم مربوط ہیں۔ سب سے پہلے بات داخلی عناصر کی کرتے ہیں۔

ای ٹی وی نیٹ ورک کےمکیش امبانی کے نیٹ ورک ایٹین کا مکمل طور سے حصہ بننے سے پہلے ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب راجستھان کے ریٹائرڈ آئی اے ایس جگدیش چندرا نے ای ٹی وی کے ہندی اور اردو چینلوں کی کمان سنبھالی تھی۔ وہ دور بھی عجیب قسم کا دور تھا۔ ہندی کے ہر چینل کی پالیسی اس سے متعلق ریاست میں بر سر اقتدار پارٹی اور اسکے لیڈروں کی ‘للو چپو’ پر منحصر تھی۔ مثال کے طور پر راجستھان میں اگر کانگریس کی حکومت تھی تو اسکے وزیر اعلیٰ اور وزیروں کی مدح سرائی کی جاتی تھی۔انکی تنقید حرام تھی۔۔ مدھیہ پردیش میں اگر بی جے پی کاراج تھا تو اسکے وزیر اعلیٰ ، وزیروں اور پارٹی لیڈروں کے خلاف خبروں کو روک دیا جاتا تھا۔ اور ‘سب کچھ چنگا سی’کی تصویر پیش کی جاتی تھی۔ اردو چونکہ جغرافیائی اور پارٹی حکومتوں کی حدوں سے آزاد تھی تو اردو چینل کو قدرے ان جھنجھٹوں سےآزادی میسر تھی۔ وہاں مسلمانوں کے امور پر کھل کر خبریں چلائی جاتی تھیں لیکن مالی اور سیاسی مفادات کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہتی تھی۔ مرکز کی مودی حکومت کی خوشامد کی پالیسی سے اردو چینل جگدیش چندرا کے دور میں بھی محفوظ نہیں رہا۔اس چکر میں مسلمانوں کی دلچسپی اور پسند اور نا پسند کوپس پشت ڈال دیا جاتا تھا۔ ہر چینل اپنے دیکھنے اور سننے والے کی دلچسپی پسند اور نا پسند کا خیال رکھتے ہوئے ہی پروگرام ترتیب دیتا ہے اور خبریں پیش کرتا ہے۔ جگدیش چندرا کے دور میں اردو چینل کے ساتھ بھدا مذاق یہ کیا جانے لگا کہ اردو ناظرین کو وہ شکلیں دیکھنے کو مجبور کیا جاتا تھا جنہیں وہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ انہیں وہ باتیں سنائی جاتی تھیں جنہیں وہ سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ اردو چینل پر غیر محسوس طریقے سے مسلم مخالف خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔ اگر مودی جی یا امت شاہ کا کوئی پروگرام کہیں ہورہا ہے تو جاری بولیٹن میں مودی جی اور امت شاہ کے پروگرام کو لائو دکھایا جانا لازمی تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم ناظرین اردو چینل نے بد ظن ہونے لگے۔’خاص بات’ اور ‘عالمی منظر’ جیسے مقبول ترین پروگرام بھی مسلم مخالف خبروں اور ناپسندیدہ شخصیوں کے پرچاراور دیدار سے آلودہ کردئے گئے۔آئے دن خود جگدیش چندرا کسی نہ کسی بہانے اسکرین پر براجمان ہو جاتے تھے۔

کشممیر سے متعلق خبروں اور بولٹین کو اردو کے بقیہ تمام پروگراموں اور خبروں پرفوقیت دئے جانے کا کام رامو جی راؤ کے دور میں ہی چینل کے ذمہ داروں نے شروع کردیا تھا۔ ایک دور تھا کہ جب ملک کے ہر مسلم اکثریتی علاقے میں اردو رپورٹر اور نمائندے ہوا کرتے تھے لیکن بدریج طریقے سے انکی تعداد کو منصوبہ بند طریقے کم سے کم کردیا گیا ۔گجرات جیسے حساس علاقے میں اردو کا کوئی باقاعدہ نمائندہ باقی نہیں رہا۔۔

وہ دور بھی آیا کہ جب جموں کشمیر اور لداخ میں تیعنات رپورٹروں اور نمائندوں کی تعداد ملک بھر میں موجود رپورٹروں اور نمائندوں کی تعداد سے زیادہ کردی گئی۔اردو چینل کا ڈیسک اسٹاف ‘کشمیر فوبیا’ کا شکار رہتا تھا۔ کشمیر کی برفباری کی تصویر جاری بولیٹن میں لگانے میں تھوڑی سی تاخیر پر متعلقہ بولیٹن پروڈیوسر کو سسپنڈ تک کردیا جاتا تھا۔کشمیر بولیٹن تو کشمیر بولیٹن بقیہ بولیٹنس بھی کشمیری اثر سے محفوظ نہیں تھے۔ کشمیر بولیٹن میں کشمیری مسلمانوں سے زیادہ کشمیری پنڈتوں سے متعلق خبروں کی بھرمار رہتی تھی۔ملک کے بقیہ حصوں کے مسلمانوں کو کشمیری پنڈتوں کی خبروں سے بھلا کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔اردو چینل کے بقیہ تمام بولیٹن اور پروگرام کشمیر کی بھینٹ چڑھا دئے جاتے تھے۔۔

اردو چینل کے اسکرین پر انگریزی کا بول بالا

اردو چینل کا حلیہ بگاڑنے کے معاملے میں گزشتہ دو برسوں میں تو حد کردی گئی۔ ملک کے کسی بھی زبان کے چینل کو دیکھ لیجئے اسکے اسکرین پر کسی دوسری زبان کا کوئی جملہ یا حرف نظر نہیں آئے گا لیکن اردو چینل کا اسکرین انگریزی جملوں سے آلودہ کیا جانے گا۔ گرافکس سے لیکر پروگرام کا عنوان اور بحث و مباحثے میں شامل مہمانوں کے نام بھی انگریزی میں جانے لگے تھے۔ اور یہ سب دانستہ طور سے کیا جارہا تھا۔ اردو چینل کے اسکرین پرانگریزی کے زیادہ استعمال سے بھی مسلم ناظری بے چینی محسوس کرنے لگے تھے۔جہاں تک Content (متن) کی بات ہے تو اردو چینل بھی کم و بیش نیٹ ورک کے بقیہ نفرتی چینلوں کے نقش قدم پر چلایا جارہا تھا۔

اردو والوں پر انگریزی تھوپی گئی۔
صبح کی تازہ ہیڈ لائنس بھی انگریزی میں۔
اردو ناظرین کو بد ظن کرنے کی سازش
اردو چینل سے اردو کو ختم کرنے کی سازش

اردو چینل کے خاتمے میں خارجی عناصر کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات جگ ظاہر ہیکہ موجودہ مرکزی حکومت مسلم دشمن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مسلمانوں کے مذہب انکی تہذیب، ثقافت اور لباس کی طرح اردوزبان بھی حکومت کی Hate List نفرت کی فہرست میں شامل ہے۔اردو کے خاتمے کی سازش پر کھلم کھلا طور سے عمل کیا جارہا ہے۔ وزارت فروغ انسانی وسائل(HRD) کے تحت اردوزبان کے فروغ کے لئے قائم ادارےNCPUL کے اخراجات میں بیس فیصد کی کٹوتی پہلے ہی کی جا چکی ہے۔

کورونا کے دور میں دور درشن کے ہر زبان کے پروگراموں اور بولیٹنس کی طرح متعدد اردو پروگرام اور بولیٹن بھی روک دئے گئے تھے۔ لیکن کورونا دور کے خاتمے کے بعد ہر زبان کے روکے گئے پروگرام اور بولیٹن شروع کئے جا چکے ہیں لیکن اردو کے تمام پروگرام اور بولیٹن بحال نہیں کئے گئے ہیں۔ کورونا سے پہلے ڈی ڈی اردو پر دس پروگرام ہوتے تھے لیکن آج صرف دو پروگرام نشر ہوتے ہیں۔

۔آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میں ایک محکمہ ہے ای ایس ڈی یعنی
ایکسٹرنل سرویسیز ٖ ڈویزن۔ اس کے تحت ہمسایہ ملکوں بالخصوص پاکستان اور بنگلہ دیش کے حالات پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ان ملکوں سے متعلق خبروں پر تبصرے پیش کئے جاتے ہیں۔یہ تبصرے اور مضامین اردو صحافیوں سے معقول رقم کے عوض لکھوائے جاتے ہیں۔ لکھنے والےاردو صحافیوں کا باقاعدہ ایک پینل ہے۔لیکن دو ماہ پہلے اس پینل کو معطل کردیا گیا ہے۔ ای ایس ڈی کا کام ریڈیو کے اردو نیوزسیکشن کو دیا گیا ہے۔ اور اب مضامین اور تبصرے اردو میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں غیر مسلم صحافیوں سے لکھوائے جا رہے ہیں اور انکا اردو میں ترجمہ نیوز سیکشن کا اسٹاف کررہا ہے۔ اس اقدام سے دو کام ہوئے۔ ایک یہ کہ آل انڈیا ریڈیو میں اردو کا دائرہ محدود ہو گیا اور دوسرا یہ کہ اردو قلمکار اور مسلم صحافی معقول رقم سے محروم ہو گئے۔

ادھر وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت ایک ادبی اردو ماہنامہ ‘آجکل’ کی کارکردگی اور سرگرمی کو بھی محدود کیا جارہا ہے۔ آجکل کے ذمہ داروں سے کہا جارہا ہیکہ باہر کے اردو قلمکاروں سے کم سے کم لکھوایا جائے۔ کم لکھوایا جائے گا تو کم رقم اردو قلمکاروں کو دی جائے گی۔ ‘آجکل ‘کی جانب سے شعرا، مضمون نگاروں اور تبصرہ نگاروں کو معقول رقم ادا کی جاتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ مکیش امبانی کا نیٹ ورک ایٹین گروپ بھی مودی کے گودی میڈیا میں شامل ہے۔ مودی حکومت کی اردو اور مسلم دشمن پالیسیوں کے اثر سے امبانی کا نیوز نیٹ ورک اچھوتا نہیں ہے۔ نیوز ایٹین اردو کے خاتمے میں مودی حکومت کی خوشنودی کا معاملہ شامل نظر آتا ہے۔نیوز ایٹین کا ہر چینل مسلم دشمنی اور ہندو اور مسلم کے درمیان نفرت پھیلانے میں مصروف ہے۔نیوز ایٹین اردو چینل محبت اور بھائی چارے کے فروغ کی کوشش کرتا تھا۔ اس لئے اردو چینل نیٹ ورک ایٹین کے نفرتی چینلوں میں Un Fit تھا۔ پورے نیٹ ورک کو نفرتی نیٹ ورک میں تبدیل کرنے کے لئے اردو چینل کا خاتمہ ضروری تھی۔

موجودہ حالت یہ ہیکہ دن بھرمیں کشمیر کے محض دو بولیٹن اردو میں نشر ہوتے ہیں جبکہ لداخ اور ہماچل پردیش کی خبریں ہندی میں پیش کی جاتی ہیں۔ ایک دور تھا کہ جب اردو چینل عالمی سطح پر بی بی سی، وائس آف امریکہ ، جرمنی کے ڈی ڈبلو اردو اور اردو نیوز جدہ کا ہم پلہ سمجھا جاتا تھا اور اب یہ حالت ہیکہ اسے کشمیر کے مقامی ‘گلستان’ ٹی وی اور سرکاری ‘ڈی ڈی کشیر’ سے مقابلے کے لئے جدو جہد کرنا پڑ رہی ہے۔

Related posts

ایک اور قابل ڈاکٹر کورونا کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ڈاکٹر کے کے اگروال بھی نہیں رہے۔

qaumikhabrein

کورونا کی نئی قسم سعودی عرب پہونچ گئی

qaumikhabrein

چین۔ علی بابا گروپ پر چین کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ۔

qaumikhabrein

Leave a Comment