وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 21اپریل کو راجستھان کے بانسواڑہ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے تعلق سے دعویٰ کیا تھا کہ اگر وہ بر سر اقتدار آئی تو ملک کے عوام خصوصاً پسماندہ و دلت طبقات کو حاصل مراعات بھی مسلمانوں کو دے دیگی۔اپنے دعوے کے حق میں مودی نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک بیان کا حوالہ دیا تھا جس میں انھوں نے ملک کے کمزور طبقات کو ملک کے وسائل کا پہلا حقدار قرار دیا تھا۔اسی بیان کے تسلسل میں انھوں نے مسلمانوں کا بھی ذکر کیا تھا،لیکن بیان ملک کے تمام کمزور طبقات کے حقوق سے متعلق تھا،لیکن مودی نے اس بیان کو پوری طرح گمراہ کن بنا دیا اور اسے صرف مسلمانوں سے جوڑ کر ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی کی جو کوشش کی اس سے ملک بھر میں ہنگامہ ہو گیا،اور تمام سیکولر طاقتوں نے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ تھی کہ اس بہانے ایک مرتبہ پھرمودی نے اس طرح کی اشتعال انگیزی کی کہ جس کی ہندوستان جیسے ملک کے وزیر اعظم سے قطعی توقع نہیں کی جا سکتی۔مودی نے منموہن سنگھ کے بیان کے بہانے مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والا اور درانداز بھی ٹھہرانے کی کو کوشش کی۔کانگریس سمیت تمام پارٹیوں نے مودی کے اس بیان کو نہ صرف جھوٹ پر مبنی قرار دیا بلکہ اس معاملے کی شکایت الیکشن کمیشن سے بھی کی۔حالانکہ اس درمیان مودی نے اپنے مذکورہ بیان کو پوری دیدہ دلیری سے راجستھان کے ٹونک حلقے میں بھی دوہرایا۔مودی کے اس رویے سے صاف ظاہر تھا کہ نہ تو انھیں انتخابی ضابطہ اخلاق کی پرواہ ہے اور نہ الیکشن کمیشن کی کسی ممکنہ کارروائی کا ہی کوئی ڈر ہے۔اس کا کیا سبب تھا یہ تو مودی ہی جانتے ہونگے،لیکن کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی الیکشن کمیشن سے شکایت کے کئی دن بعد کمیشن نے جس طرح اس معاملے کو ہلکے ڈھنگ سے لیا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کمیشن اس معاملے میں کسی بھی طرح صرف لیپا پوتی کی کارروائی کرنے تک ہی خود کو محدود رکھنا چاہتا تھا۔ممکن ہے کمیشن کو اس تعلق سے کسی طرح کا خوف یا دباؤ کاسامنا ہو۔بہرحال شکایت کے چند روز بعد کمیشن نے اس پر جو قدم اٹھایا وہ اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔کانگریس سے مذکورہ معاملے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بی جے پی نے بھی کانگریس کے تعلق سے کچھ شکایتیں الیکشن کمیشن سے کیں۔کمیشن نے اس تعلق سے دونوں معاملوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھتے ہوئے جو قدم اٹھایا وہ وہ ناقابل فہم تھا،اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر ایک داغ کے مترادف تھا۔کمیشن نے اس تعلق سے فریقین کی جانب سے آنے والی شکایتوں پر بیان دینے والے لیڈروں سے وضاحت طلب کرنے کی بجائے پارٹی لیڈروں یعنی بی جے پی اور کانگریس کے صدور سے وضاحت طلب کی۔یہ اپنے آپ میں ایک عجیب و غریب فیصلہ تھا،اور کسی طرح بھی قابل فہم نہیں تھا۔لیکن اس سے بھی زیادہ عجیب بات جسے بی جے پی کی ہٹ دھرمی کہنا زیادہ مناسب ہوگا،وہ یہ تھی کہ ایک کھلے اور عوام کی موجودگی میں کئی مرتبہ دیے گئے وزیر اعظم کے بیان کا جواب دینے میں بی جے پی صدر نڈّا کو تقریباً تین ہفتے لگ گئے۔نڈا نے جواب دینے کے لیے دو مرتبہ الیکشن کمیشن سے ایک ایک ہفتے کا وقت طلب کیا اور انھیں یہ وقت مل بھی گیا۔حالانکہ اتنے سنگین معاملے کو معرض التواء میں رکھنے کا راست اثر انتخابی ماحول پر پڑنے کا امکان بھی تھا،لیکن کمیشن نے اس پہلو کونظر انداز کر دیا۔۔اس دوران وزیر اعظم حسب عادت متنازعہ بیان سمیت دیگر قابل اعتراض بیانات دیتے رہے اور مذہب کی بنیاد پر ووٹوں کی صف بندی کرنے کی ان کی کوشش جاری رہی۔کمیشن نے ان بیانات کا بھی از خود نوٹس لینے سے گریز کیا۔
اب 13مئی کو بی جے پی صدر نے الیکشن کمیشن کی وضاحت طلبی کا جو جواب دیا ہے،اسے بھی پارٹی کی ہٹ دھرمی ہی کہا جائیگا۔رپورٹ کے مطابق جے پی نڈّا نے کمیشن کو بھیجے گئے جواب میں مودی کے مذکورہ بیان سمیت دیگر تمام متنازعہ بیانات کو ”حقائق پر مبنی“ قرار دیا ہے۔نڈا کے جواب میں ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ پر عمل کرتے ہوئے شکایت کنندگان یعنی کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے ہندو مذہب کی توہین کی ہے،لہٰذا ان پارٹیوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔بی جے پی صدر نے کانگریس پر مسلم لیگ کی پالیسیوں پر چلنے کا الزام بھی لگایا۔واضح رہے کہ خود مودی بھی کانگریس پر یہی الزام لگا چکے ہیں۔حالانکہ یہ الزام لگاتے ہوئے بی جے پی لیڈر بھول جاتے ہیں کہ اقتدار کی خاطر مسلم لیگ سے معاونت کی سنگھ اور جن سنگھ(پرانی بی جے پی)کی بھی تاریخ موجود ہے۔ لیکن وہ بی جے پی ہی کیا جو اپنے گریبان میں جھانک لے۔اپنے جواب میں نڈا نے ہندو مذہب کو ”ہندوستان کا اصل مذہب“ بتاتے ہوئے کانگریس پر یہ الزام بھی لگایا کہ و ہ وزیر اعظم مودی کی مخالفت کرکے ہندوستان کی ”قدیم تہذیب“ کی مخالفت کر رہی ہے۔
نڈا کے مذکورہ بیان کو ان کے فہم و شعور پر پڑے ہوئے نفرت اور تعصب کے پردے کے سوا اور کیا کہا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس ہو یا بی جے پی دونوں ہی ہندوستان کی تہذیب و معاشرت
کے تعلق سے ایک باطل اور فاسد نظریے کی ہمیشہ تشہیر کرتے رہے ہیں۔بی جے پی صدر نے الیکشن کمیشن کو جو جواب دیا ہے اس میں بھی اسی باطل نظریے کو دوہرایا گیا ہے۔نڈا کو یہ یا در کھنا چاہیے کہ ماضی میں سپریم کورٹ بھی اپنے ایک فیصلے میں ہندوتو کو مذہب ماننے سے انکار کر چکا ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر اس دعوے کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ بودھ مذہب کے بارے میں کیا کہا جائیگا،کہ جو ہندوستان میں ہی پیدا ہوا؟اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے صرف مودی کے متنازعہ بیان پر نڈا سے وضاحت طلب کی تھی،اور کمیشن نہ تو ہندوازم یا کسی بھی مذہب کے قدیمی یا نیا ہونے کے تعلق سے کوئی بحث سننے کا مجاز ہے اور نہ ہی کمیشن نے اس پر بی جے پی صدر سے صفائی مانگی تھی۔ایسے میں نڈا کا جواب مودی کے خلاف شکایت کے جواب میں کانگریس یا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے مترادف ہے۔مودی کا بیان نہ تو ہندو ازم کو ہندوستان کا ”بنیادی مذہب“ ٹھہرانے سے متعلق تھا اور نہ اس طرح کی بحث کی اجازت انتخابی ضابطہ اخلاق کسی بھی سیاسی پارٹی کو دیتا ہے۔اپنے جواب میں نڈا نے کہا ہے کہ مودی صرف صرف ووٹروں کو کانگریس کے ”اصلی ارادوں“سے خبردار کرنے کے کوشش کر رہے تھے،لیکن اس معاملے میں عوامی سطح پر بی جے پی قیادت کے ذریعہ اب خاموشی اختیار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی کے بیان کا مقصد وہ نہیں تھا کہ جو نڈا نے اپنے بیان میں ظاہر کیا ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد خود بی جے پی کے لیے ہندو ووٹوں کی صف بندی تھا،یہ الگ سوال ہے کہ مودی یا ان کی پارٹی اپنے اس مقصد میں کس حد تک کامیاب ہونگے۔اس لیے کہ ووٹروں کا موجودہ رویہ بتا رہا ہے کہ وہ اپنے بنیادی مسائل کے تعلق سے بی جے پی اور مودی سرکار کے رویے سے سخت ناراض ہیں۔رام مندر،سناتن دھرم یا پھر مسلمانوں کے تعلق سے بی جے پی جو کچھ کہہ رہی ہے اس سے اس ملک کے عام آدمی کی دلچسپی اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور ملک کی ترقی سے متعلق بنیادی مسائل پر اب وہ مودی حکومت کی ”کارگزاریوں“ کا محاسبہ کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ایسے میں نڈا کا الیکشن کمیشن کو دیا گیا جواب بھی ملک کے اصل مسائل سے فرار اختیار کرنے اور منافرتی ایجنڈے کا دفاع کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
sirajnaqvi08@gmail.com