آج جب ہم اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منا رہے ہیں ہمیں لکھنؤ کا “نیا دور ” یاد آرہا ہے جو ابھی کورونا کی مہاماری سے پہلے اچھا بھلا اور ہٹا کٹا تھا پھر بیماری بہانہ بن گئی اور نصف صدی کا یہ مقبول عام رسالہ جس کو علی جواد زیدی نے پروان چڑھایا اور یکے بعد دیگرے آنے والے بالغ نظر اور ادب دوست مدیروں نے اس کی تزئین کاری کی ۔بر صغیر کے مشاہیر اہل قلم کی نگارشات اس کی زینت بنیں۔ امیر احمد صدیقی ۔صباالدین عمر۔ امجد حسین ۔شاہ نواز قریشی ۔ وضاحت حسین رضوی نے اس کے خصوصی نمبر نکالے جو یقیناٗ تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سہیل وحید نے جہاں اس کے ظاہری حسن کو جاذب نظر بنایا وہیں شعر و ادب کی باقی الصالحات شخصات پر مضامین لکھوا کر اور شائع کرکے اس کو عصری ادب میں نمایاں مقام دلایا ۔افسوس کہ اب کورونا کی بلا ٹلنے کے بعد جب حالات معمول پر آگئے ہیں یہ اہم رسالہ کیوں سرد خانے میں پڑا ہوا ہے ۔اگر خدانخواستہ یہ دم توڑ چکا ہے تو اس کی موت کا اعلان کردیا جائے تاکہ ہم ماتم کناں صبر کر لیں اور اگر اس میں کچھ جان باقی ہے تو اسے کسی اچھے منتظم کے سپرد کیا جائے کہ یہ مکمل طور پر صحتیاب ہوکر پھر اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کرے۔
یہ مکمل طور پر صحتیاب ہوکر پھر اپنے چاہنے والوں کے دلوں پر راج کرے۔
اتر پردیش حکومت کے محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ کو یہ بتانا تو چاہئے کہ ‘نیا دور’ جاری رہےگا یا اسکا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اردو والوں کو جواب کا انتظار ہے ۔