qaumikhabrein
Image default
uncategorizedٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

قانون کے راج کا جشن منائیں یا قانون کی دھجیاں اڑائے جانے کا ماتم ؟

کسی کی ذات پر تبصرہ کرنے اور لوگوں کو زندہ جلا دینے میں کون سا جرم سنگین ہے۔ اس سوال کے جواب میں کوئی بھی ہوش مند انسان یہی کہے گا لوگوں کو زندہ جلادینے کی حرکت ناقابل معافی اور سنگین ترین جرم ہے۔ لیکن نہیں جناب یہ جدید ہنسدستان ہے۔ اسکا عدالتی نظام بھی جدید نوعیت کا ہے۔اب ہمارے ملک کی عدالت کی نظر میں کسی کا کسی کی ذات پر تبصرہ کردینا زیادہ سنگین جرم ہے اور اس جرم کی سزا دو برس ہے۔اس سزا کی وجہ سے مجرم کو اس ایوان کی رکنیت سے محروم کردیا جاتا ہے جسکے لئے اسے عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کرکے بھیجا تھا۔ اور لوگوں کو زندہ جلا کر مار ڈالنے کی حرکت ایسی نہیں ہیکہ جسکے لئے ملزمین کو مجرم ٹھہراکر قید کی سزا دی جا سکے۔زندہ جلا کر مار ڈالنے کا جرم کوئی جرم ہی نہیں ہے۔عدالت کی نظر میں انصاف کا تقاضہ یہ ہیکہ تمام ملزمین کو با عزت بری کردیا جائے۔ بھلے ہی کوئی ملزم ببانگ دہل یہ اعتراف کر چکا ہو کہ وہ مسلمانوں کے قتل میں شامل ہے۔ عدالتوں کے یہ دو فیصلے یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ملک کی عدلیہ کی نظر میں انسانی حقوق اور انسانی جانوں کی کیا قیمت ہے۔ آئین کی بالا دستی کی کیا حیثیت ہے۔ قانون کے راج کی انکی نگاہ میں کتنی اہمیت ہے۔

احمد آباد کی خصوصی عدالت نے 21 سال بعد ان 67 ملزمین کو بری کر دیا ہے جنہوں 2002 کے گجرات فرقہ وارانہ فسادات کے دوران نرودا گاؤں میں ایک 12 سالہ لڑکی سمیت کم از کم 12 مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ جن ملزمین کو بری کیا گیا ہے ان میں گجرات کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل لیڈر بابو بجرنگی شامل ہیں۔بابو بجرنگی نے خود ایک ویڈیو فوٹیج میں مسلمانوں کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ یہ ویڈیو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے اور قانون کو منہ چڑھا رہا ہے۔ نرودا گاؤں کا معاملہ ان نو مقدمات میں سے ایک ہے جن کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو حکم دیا تھا۔ اس کیس کی سماعت 14 سال پہلے جولائی 2009 میں شروع ہوئی تھی۔

یہ تو ہے 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران رونما ہوئے روگٹنے کھڑے کر دینے والے ایک کیس کا قصہ۔
اب بات کرتے ہیں اپریل 2019 کی ایک ریلی کی ۔ کرنا ٹک کے کولار میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس راہل گاندھی نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تھا کہ آخر تمام چوروں کے نام میں مودی ہی کیوں لگا ہوا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہیکہ راہل گاندھی نے یہ جملہ کرنا ٹک کے کولار کی ایک ریلی میں کہا تھا اور گجرات کے سورت ویسٹ کے بی جے پی ایم ایل اے پورنیش مودی نے اسے سورت کی عدالت میں نچلی ذات والوں کی بے عزتی کا کیس بنا کر راہل گاندھی کے خلاف مجرمانہ ہتک عزت کا دعویٰ ٹھونک دیا۔پورنیش مودی کا کہنا ہیکہ راہل گاندھی کے بیان سے مودی فرقہ کے کروڑوں افراد کے جزبات کو ٹھیس پہونچی ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہیکہ یہ امر ہی ابھی تک طے نہیں ہیکہ مودی فرقہ پسماندہ ذات کی کٹیگری میں شامل ہے بھی نہیں۔ لفظ مودی اپنے نام کے ساتھ صرف پسماندہ ذات کے لوگ ہی نہیں لگاتے بلکہ دیگر ہندو بھی اسکو اپنے نام کا جزو بناتے ہیں۔ ۔مجموعی طور سے پورنیش مودی کے مقد مہ کی بنیاد نہایت کمزور تھی۔

پورنیش مودی۔راہل گاندھی

مقدمہ کی سماعت جاری تھی اور اس بیچ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ملک بھر میں حکومت کے خلاف ایک لہر پیدا کردی۔ مودی حکومت نے اس یاترا کو کورونا پھیلنے کی وجہ بتا کر روکنے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ ناکام رہی اور یاترا اہل وطن کو جوڑنے کا کام کرتی رہی اور حکومت کی پریشانی میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس درمیان مودی حکومت کے لاڈلے گوتم اڈانی کے گھوٹالے کا پھانڈہ پھوڑ ہوگیا۔

مودی جی اور اڈانی جی

راہل گاندھی نے بھری پارلیمنٹ میں وزیر اعظم مودی اور اڈانی کے رشتوں پر سوالات کھڑے کر کے وزیر اعظم سے اڈانی کے ساتھ رشتوں پر صفائی دینے کا مطالبہ کرڈالا۔ اڈانی کے معاملے پر مرکزی حکومت بری طرح پھنس چکی تھی۔ اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ اسے نظر نہیں آرہا تھا۔ حکومت ایک ایسی تدبیر کی تلاش میں تھی جسکی مدد سے راہل گاندھی کو راستے سے ہٹایا جاسکے ۔ اسی ماتھا پچی کے دوران اسکی نظر مودی نام کے معاملے پر پڑی۔ بس پھر کیا تھا بی جے پی نے اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا

یہ پوری سازش اس طرح بے نقاب ہوئی کہ اس کیس میں راہل کو دو برس کی سزا دی گئی۔ اور آناً فاناً میں عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ آٹھ کے تحت کاروائی کرتے ہوئے راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت کو ختم کردیا گیا۔ حکومت موقع کی تاک میں ہیکہ راہل گاندھی کو آٹھ برس کے لئے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نا اہل ٹھہرا دیا جائے۔ راہل گاندھی کے خلاف اس سازش کا ایک پہلو یہ بھی ہیکہ راہل گاندھی کو مجرم ٹھہرانے والے سورت ضلع کورٹ کے جسٹس ہریش ہس مکھ بھائی وہ جج ہیں جنکو 2015 سے پروموشن نصیب نہیں ہوا تھا۔ 29 دسمبر2022 کو انہیں ایڈیشنل سی جے ایم سے چیف جیو ڈیشیل مجسٹریٹ بنا دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ 10 مارچ2023 کو جسٹس ہریش ہس مکھ بھائی کو سول جج سے ضلع جج کیڈر میں شامل کردیا گیا۔ اور 23 مارچ2023 کو انہوں نے راہل گاندھی کو مجرم ٹھہرا دیا

۔ راہل گاندھی نے سورت کورٹ سے انہیں مجرم ٹھہرائے جانے کے فیصلے پر روک لگانے کی درخواست کی تو اسکو بھی خارج کردیا گیا۔ اور ادھر نرودا قتل اور لوگوں کو زندہ جلانے کے معاملے کے تمام مجرمین کو با عزت بری کردیا گیا۔ ایک سیکولر جمہوری ملک کے عوام کے سامنے ان دو معاملوں نے یہ مسئلہ کھڑا کردیا ہیکہ وہ قانون کی حکمرانی کا جشن منائیں یا قانون کی دھجیاں اڑائے جانے کا ماتم کریں۔۔۔(تحریر۔جمال عباس فہمی)

Related posts

علی پور میں مسجدِ زین العباء کا جشنِ افتتاح

qaumikhabrein

توہین رسالت کا معاملہ۔او آئی سی نے بھی جتائی سخت ناراضگی

qaumikhabrein

دہلی۔ کار میں بھی ماسک لگانا لازمی۔

qaumikhabrein

Leave a Comment