
نعیم نقوی ایک منجھے ہوئے قلمکار ہیں۔وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔انکی تازہ کتاب To be a Pilgrimکو پڑھنے کا موقع ملا اور بے اختیار اس کتاب کے تعلق سے اپنے تاثرات سپرد قرطاس کرنے کو جی چاہا۔کچھ لکھنے کی اس بے اختیار چاہت کی کئی وجوہات ہیں۔ نعیم نقوی نے ایران اور عراق کےجن مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے بعد یہ کتاب لکھی ان مقدس مقامات کی زیارت کی نا مکمل حسرت کے ساتھ میرا بڑا گہرا جذباتی لگاؤ ہے۔ نعیم نقوی نےایران اور عراق کے اس سفر عشق کو جس پیرایہ میں تحریر کیا وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کتاب کو سفر نامہ بھی کہا جاسکتا ہے اور زیارت نامہ بھی لیکن میری نظر میں یہ کتاب تاریخی پس منظر کے ساتھ زیارت نامہ ہے۔کتاب میں شیعوں کے مذہبی اور عقیدتی نقطہ نظر سے مقدس مقامات، روضوں اور مزارات کا ذکر انکے تاریخی پس منظر اور فن تعمیر اور ثقافتی پہلوؤں کے ساتھ کیا گیا ہے۔

ایران میں امام، امام زادوں اور امام زادیوں کے مقدس روضوں کے ذکر سے پہلے مصنف نے ایران کی قدیم تاریخ کا جائزہ لیا۔نعیم نقوی نے اسلام سے قبل کے دور کے ایران کا ذکر کیا ہے ۔قبل اسلام کے ایران کے بارے میں جاننے کی جستجو رکھنے والوں کے لئے یہ امر دلچسپ ہوگا کہ آتش پرستی ایران کا قدیم ترین مذہب رہا ہے۔زرتشت نے آتش پرستی کے عقیدے کی بنیاد3500 برس قبل ڈالی تھی۔انکی عبادت گاہوں ‘آتش کدوں’ میں آگ ہمیشہ روشن رہتی تھی۔640عیسوی میں ایران کو اسلامی قوت نے زیر کرلیا۔ایران میں شیعت کو غلبہ حاصل کرنے میں اسکے بعد بھی کئی سو برس لگے۔ایران کے اسلام کے زیر نگیں آنے سے بہت پہلے سے ہی مسلمانوں اور فارس کے درمیان رشتہ رہا ہے۔ایمان کے دسویں درجے پر فائز جید صحابی رسول سلمان فارسی کاتعلق ایران سے ہی تھا۔امام حسین کی ایک زوجہ اور امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو کاتعلق بھی ایران سے ہی تھا وہ۔ شاہ ایران زرتشت کی صاحب زادی تھیں۔صفوی شاہی سلسلے کے بانی شاہ اسمعیل نے اثنا عشری شیعہ اسلام کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا۔

مصنف نے سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کا سرسری طور سے جائزہ لینے کے بعد ایران میں قاچاری اور پہلوی شاہی سلسلے کے عروج و ذوال کے اسباب پر بھی گفتگو کی ہے ۔پہلوی خاندان نے ایران پر1925 سے 1979 کے اسلامی انقلاب تک حکومت کی۔اسلامی عناصر کے عروج اور شاہی حکومت کے خلاف اسکی تحریک کا بھی مصنف نے جائزہ لیا۔مصنف نےمقدس شہروں مشہد، نیشا پوراورقم کا جغرافیائی محل وقوع کا انکے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کیا ہے۔امام رضا اور انکی ہمشیرہ معصومہ قم کے مزارات کی تعمیر اور تزئین میں کن کن سلاطین نے اہم کردار ادا کیا مصنف نے اسکا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ جمکران اور قم کی دینی درسگاہوں کے قیام کا تاریخی منظر نامہ کے ساتھ کتاب میں ذکر ہے۔امام رضا کی ہمشیرہ معصومہ قم کی ایران آمد اور امام زادہ موسیٰ مبرقع کی زندگی انکی ایران آمد قم اور کاشان کے لوگوں کا انکے ساتھ سلوک اور انکے مزار کا مصنف نےتفصیل سے ذکر کرکے عام لوگوں کی معلومات میں اضافہ کا فرض ادا کیا ہے۔

نعیم نقوی نے عراق کے مقدس مقامات کا تفصیلی ذکر کرنے کے ساتھ نجف اشرف اور کوفے کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ کوفہ کی چھاؤنی بسائے جانے کےذکرکے ساتھ آئمہ اطہار بالخصوص مولا علی، امام حسن اور امام حسین کے ساتھ کوفیوں کے برتاؤ اور سلوک پر بھی مصنف نے روشنی ڈالی ہے۔مصنف نے صدام کے دور حکومت میں عام شیعوں سے لیکر شیعہ علما، دینی درسگاہوں اور مقدس روضو ں تک کی بربادی اور مظالم کا بھی ذکر کیا ہے۔مصنف کے مطابق جب وہ کربلا میں تھے تو اس وقت امام حسین اور مولا عباس کے روضوں اور بین الحرمین کی توسیع اور تجدید کاری کا سلسلہ جاری تھا۔اس لئے انکی توجہ کربلا کے ان مقامات کی جانب مبزول ہوئی جنکا واقعات کربلا سے گہرا اور درد انگیز تعلق ہے۔


مثال کے طور پر وہ مقام جہاں غازی عباس علمدار کے شانے قلم ہوئے تھے،وہ مقام جہاں ننھے مجاہد جناب علی اصغر کی حرملہ کے تیر کے سبب شہادت واقع ہوئی تھی اور وہ مقام جہاں ہمشکل پیغمبر جناب علی اکبر نے سینے پر نیزے کا زخم لگنے کے بعد جام شہادت نوش کیا تھا۔ یہ وہ مقامات ہیں جو کربلا کی تنگ گلیوں میں گم ہیں۔ یہ اہم مقامات شاندار روضوں کی تعمیر سے اب تک محروم ہیں۔مصنف نے شکوہ کیا کہ عراقی حکومت اور عوام نے اب تک مقام جناب علی اکبر و قتل گاہ علی اصغر اور عباس علمدار کے شانے منقتع ہونے کے مقامات پر شایان شان طریقے سے روضوں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی ہے۔ مصنف نےکربلا، نجف، کاظمین و سامرہ میں آ ئمہ اطہار کے روضوں کے علاوہ عراق کے بعض ایسے مقامات کا بھی دورہ کیا جہاں زائرین کم ہی جاتے ہیں۔ان مقامات میں مسجد رد شمس،سامرہ کا گھماؤ دار مینار،قید خانہ سامرہ،مقام زعفر جن، بہلول دانہ کا مزار اورمولا علی کے صحابی کمیل ابن زیاد الکوفی کا مزار اہمیت کے حامل ہیں۔

مقامات مقدسہ کی زیارت ایک روحانی سفر کی مانند ہے اس سے روح میں تازگی اور ایمان اور عقیدے میں بالیدگی کا احساس ہوتا ہے۔نعیم نقوی کی کتاب کا مطالعہ کرکے نہ صرف ایران و عراق کی تاریخ و قدیم ثقافت اور روایات سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ روح کو ایک قسم کی طمانیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔
کتاب کے مصنف سیدنعیم سبطین نقوی کا تعلق امروہا کے ایک علمی اور ادبی گھرانے سے ہے ۔ وہ اے ایم یو کے گریجویٹ ہیں۔وہ آکسفورڈ اسٹڑیٹ لندن کے ایچ ٹی ٹی کالج سے ڈی بی سی ہیں۔ مشرق وسطی کی ایک فوڈ پروسیسنگ کمپنی میں آر اینڈ ڈی ہیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ دنیا گھوم چکے ہیں اورمختلف موضوعات پر متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں۔
یہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔کون ہیں موسیٰ مبرقعhttps://www.qaumikhabrein.com/news/iran-qom-imamzada-musamubarraq/