
عمل سے عاری ہے جب مسلماں
فقط دعاؤں سے کچھ نہ ہوگا۔
دعا کا حکم اللہ نے دیا ہے لیکن کیا صرف دعا ہی کامیابی کے لئے کافی ہے۔ جی نہیں۔ اگر صرف دعائیں کامیابی کی ضمانت ہوتیں تو آج دنیا بھر کے مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔
اسرائل کا پہلا وزیر اعظم بن گوریان ایک روز کچھ جلدی میں گھر سے جارہا تھا کہ اسکی بیٹی نے یاد دہانی کرائی کہ آج دیوار گریہ (Wailing Wall) پر سالانہ دعا کا دن ہے۔ بن گوریان نے جواب دیا کہ ریاستی امور سے متعلق کچھ اہم کام نمٹانے ضروری ہیں۔
بیٹی نے کہا کہ سالانہ دعا سے اہم اور کیا کام ہو سکتا ہے؟

بن گوریان نے تاریخی جواب دیا کہ ”اگر صرف دعا سے کام ہوتے تو تمام عرب اور مسلمان حج کے اتنے بڑے اجتماع میں ہر سال اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی دعا مانگتے ہیں لیکن عمل سے عاری ہیں جبکہ نتیجہ تمہارے سامنے ہے عرب اور مسلمان کس حال میں ہیں اور نو زائیدہ یہودی ریاست دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔میں ریاستی امور طے کرکے شام کو دعا میں بھی شامل ہو جاؤنگا”۔

ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ بے عمل مسلمان اس ساٹھ لاکھ کی آبادی والے ملک کے سامنے بے بس ہیں اور اب یہ حالت ہیکہ اور نام نہاد اسلامی اور عرب ممالک اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اسی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
اسلام کی تاریخ شاہد ہیک اگر صرف دعاوں اور التجاوں سے مسائل حل ہونے ہوتے تو نہ رسول اللہ کو غزوہ بدر کے لیے جانا پڑتا نہ احد، نہ خندق اور نہ باقی تمام جنگیں لڑنی پڑتیں۔ اسلام رسول اللہ کی دعاؤں کے اثر سے پھیل جاتا ہزاروں مسلمانوں کی شہادت نہ ہوتی۔