ریاستی اسمبلی الیکشن اور پورے ملک میں سیاسی طور پر مسلمانوں کی پیش قدمی اور وسیع تر قومی مفادات کے پیش نظر عنقریب ملکی سطح پر مسلمانوں کےایک سینٹرل بورڈکی تشکیل کا عمل جاری ہے۔ اس سلسلہ میں ممبئی کے سہارا(سانتا کروز) ہوٹل میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام،مختلف سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ واسمبلی اور سرکردہ سماجی و سیاسی شخصیات کی موجودگی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ مولانا خلیل الرحٰمن، سجاد نعمانی اورمولاناتوقیر رضا کی سربراہی میں مزید ممبران کو اس کمیٹی میں شامل کیا جائے گا۔ سر دست مولانا سجاد نعمانی نےمسلم ویلفیئر اسوسی ایشن کے صدر سلیم سارنگ کا نام بطور کمیٹی ممبر پیش کیا۔ واضح رہے کہ مسلم ویلفیئر اسوسی ایشن کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل اورحالات پر ایک’’ مسلم سمّٹ‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں علمائے کرام، ارکان پارلیمنٹ واسمبلی و دیگر اکابرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مسلم سمّٹ کے صدر نشین مولانا سجاد نعمانی نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ مسلمان ہند اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں مگر جینے کی ادا اسی کانام ہے کہ ان حالات میں بھی ہم منفی پہلوؤں کو مسترد کرتے ہوئے مثبت پہلوؤں پرغور کریں۔اس ملک میں ہمارا اصل مسئلہ اپنے تشخص کا ہے گویا ہمارا وجود خطرے میں ہے۔اس ملک کی غالب اکثریت ہندو نہیں ہیں لیکن خواہ مخواہ یہ جتایا جاتا ہے ملک کے 80؍ فی صد باشندے ہندو ہیں یہ سیاسی بازی گری ہے اگر یہ سچ ہوتا تو ملک کے صدر جمہوریہ مرمو کو رام مندر کی افتتاحی تقریب سے دور نہیں رکھا جاتا اور سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو دھکے مار کر ایک مندر سے باہر نہیں نکالا جاتا۔مولانا توقیر رضا نے کہا کہ اس ملک میں ہم عرصہ دراز سے اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور وقت ضائع کر رہے ہیں ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے جو لوگ اتحادملت کا نعرہ لگاتے نہیں تھکتے وہی عین وقت پر اختلافات کا جال بن دیتے ہیں جب تک ہم اپنی پیشانی سے مجبوری کا ٹیگ نہیں ہٹائیں گے ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔مجھے اس امر کا تجربہ ہے میں نے خود اس سیاسی زبوں حالی کے خاتمہ کے لئے سیاسی پارٹی قائم کی تھی اور متعدد سرکردہ مسلمانوں نے ایسا کیاتھا۔ خود ممبئی شہر میں حاجی مستان مرزا نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی تھی کہ مسلمانوں کو سیاسی طور پر طاقتور بنایا جائے مگر کیا ہوا؟ ان کے پاس جو تھا وہ بھی گنوا بیٹھے۔
دراصل ہماری قوم ایمان دار لیڈروں کا ساتھ نہیں دیتی اب یہاں وہی لیڈر کامیاب ہوسکتا ہے جو قومی جذبہ کے تحت کام کرے اور فقط اللہ سے اجر کا طلب گار رہے۔ ایس پی لیڈر ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے دہائیاں بیت گئیں مگر ہماری صفوں میں ہنوز لیڈر شپ پیدا نہیں ہوئی۔ المیہ یہ ہے قوم کسی کو اپنا قائد ماننے کے لئے تیار نہیں اب ضروری ہے کہ قوم کے اندر سیاسی شعور پیدا کیا جائے ۔ایک دوسرے کے خلاف تنقیدوں کا سلسلہ ختم ہواور لیڈر شپ پروان چڑھائی جائے۔ اگر کوئی سینٹرل کمیٹی بنائی جارہی ہے تو میرا مشورہ ہے کہ مہاراشٹر ڈیموکریٹک فورم کو اس میں شامل کیا جائے بلکہ کمیٹی میں یہاں موجود کچھ لوگوں کو شامل کرکے کام آگے بڑھایا جائے۔ جاوید علی خان راجیہ سبھا رکن نے کہا کہ جب بھی قوم میں لیڈر شپ کی بات ہوتی ہے تو سیاسی لیڈر شپ مرکزیت اختیار کر جاتی ہے مگر میرا کہنا یہ ہے کہ زندگی کےہر شعبہ میں لیڈر شپ کا ہونا ضروری ہے۔یہ بات بھی سچ نہیں ہے کہ مسلمان ریزرویشن سے محروم ہیں او بی سی اور ایس ٹی زمرے میں جو مسلمان شامل ہیں وہ اس سہولت سے فیضیاب ہیں۔ملک کی آزادی کے لئے گر چہ ہم نے لاکھ قربانیاں دی ہیں لیکن پاکستان کے قیام کی تہمت ہمارے ماتھے پر چسپاں ہے۔لہذا ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ کن حالات میں ہمیں کن معاملات کو اٹھانا چاہیے،سنبھلنا ضروری ہے۔ ایم پی ضیاءالرحٰمن برق نے کہا کہ بات اظہرمن الشمش ہے کہ مسلمان اس ملک میں دلتوں سے بھی زیادہ پچھڑے ہوئےہیں۔ریزرویشن کے حصول کے لئے مسلمانوں کو ایک طویل جنگ لڑنا ہوگی، اگر ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلسل ہر شعبہ میں پچھڑ رہی ہے تو ملک کی ہمہ جہت ترقی ناممکن ہے۔ہمارے سامنے مسائل کا انبار ہے بلڈوزر،ماب لنچنگ یا کوئی اور معاملہ ہم نے پارلیمنٹ میں بے باکی سے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی ہے۔
یہ سچ ہے کہ پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی کم ہے لیکن جو نمائندے موجود ہیں وہ اپنی قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے پارٹی لائن سے قطع نظر قومی مسائل پر متحد رہے ۔علمائے کرام کو بھی اب قوم کی قیادت کے لئے آگے بڑھنا چاہیے ۔ذیشان صدیقی نے کہا کہ ہمارے شہر ممبئی میں ایک چلن رائج ہوگیا ہے یہاں کے ووٹر الیکشن میں یہ دیکھتے ہیں کون سا امیدوار ان کے لئے کم برا یا کم خطر ناک ہے؟جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمیں ایسے امیدواروں کو منتخب کرنا چاہیے جو مشکل کی گھڑی میں ہر دم ہمارے ساتھ کھڑا رہے۔ چاہے ہم کسی بھی پارٹی سے وابستہ ہوں مگر جب قوم کی بات ہو تو ہمیں قومی مفاد کے پیش نظر ہی عمل کرنا چاہیے یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ آزادی کے بعد غالباً پہلی بار ایسا ہوا کہ مہاراشٹر کے ایوان بالا( ودھان پریشد) میں ایک بھی مسلم نمائندہ موجود نہیں ہے رکن مسلم پرسنل بورڈعظمیٰ ناہید نے کہا کہ ملک میں جو حالات ہیں وہ اپنی غفلت اور اپنے پیدا کردہ بھی ہیں۔ آج عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں اس پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ اب مزید نقصان ناقابل برداشت ہے۔ہم سمجھتے سب ہیں مگر عمل کا فقدان ہے۔ ہم اب تک یہی جاننے کی کوشش میں مبتلا؍ ہیں کہ ہمارے لیڈر کون ہیں اگر ہم اتحاد چاہتے ہیں تو اپنی ہستی کو وقف کرنا ہوگا ۔
مفتی محمد اسمٰعیل رکن اسمبلی نے کہا کہ موجودہ حالات اس امر کے غماز ہیں کہ سیاسی بصریت کی کمی سے قوم نڈھال ہے۔ قوم میں تصور عام ہے کہ کوئی دین دار شخص سیاست نہیں کرسکتا اگر کوئی عالم اس سمت قدم بڑھاتا ہے تو اسے دنیا دار قرار دیا جاتا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں لیکن ان کی لیڈر شپ کو پروان چڑھنے نہیں دیتیں۔لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں نے اپنے اکابرین کی باتوں پر عمل کیا اپنے ووٹوں کی اہمیت کو سمجھ کر ووٹنگ کی اور نتائج ہمارے سامنے ہیں اگر اسی طرح مسلمانوں میں سیاسی سوجھ بوجھ بڑھے گی تو ترقی ہوگی اور ہمارے سماج کے حالات تبدیل ہوں گے۔ مولانا ظہیر عباس رضوی نے کہا کہ اس وقت ہم تاریخ کے ایک انتہائی خطرناک دہانے پر کھڑے ہیں۔گزشتہ دس سال میں مسلمان ہند نے جو صعوبتیں برداشت کی ہیں اس کے تصور سے ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے،ہمارا تعلق ایک جذباتی قوم سے ہے،آزادی کے بعد سے ہمارا رونا وہی ہے لیڈر شپ کی عدم موجودگی ۔ہم قیادت کے بحران کا رونا تو خوب روتے ہیں لیکن قابل تسلیم قیادت کے فقدان کو فراموش کردیتے ہیں۔ ۔عبدالرحمٰن(آئی پی ایس) نے کہا کہ یہ المیہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتیں۔ آبادی کے اعتبار سے پارلیمنٹ میں ہمارے 87؍ ایم پی ہونا چاہیے مگر 24؍ایم پر ہم تکیہ کئے ہوئے۔۔ ہیں اسی طرح مہاراشٹر میں ارکان اسمبلی کی تعداد 35؍ہوناچاہئے مگر ہم ڈبل ڈیجٹ میں نہیں پہنچ پاتے ۔حکومت بھی ہمارے مسائل پر بحث سے کتراتی ہیں۔ اقبال میمن نے کہا کہ یہ اچھی شروعات ہے جس انداز میں لوک سبھا چناو میں مسلمانوں نے سیاسی سمجھ بوجھ اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے این ڈی اے کو مکمل اکثریت سے دور رکھا، ریاست کے اسمبلی الیکشن میں بھی زعفرانی خیمہ کواقتدار سےباہر کا دروازہ دکھایا جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مسلم نمائندگی کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ کوشش بھی کرنا ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلم ووٹروں کو ووٹنگ کے لئے آمادہ کیا جائے۔مسلم ویلفئیر اسوسی ایشن کی اس سمّٹ میں رکن اسمبل نواب ملک، امین پٹیل،اسلم شیخ، و شہر کے دیگر اکابرین موجود تھے۔جامعہ معراج العلوم کے مولانا زاہد اور شبانہ خان نےنظامت کے فرائض انجام دئے۔