شعبۂ اردو، ممبئی یونی ورسٹی نے کالینا کیمپس کے جے پی نائیک بھون میں کلیاتِ مضطر خیرآبادی ’’خرمن‘‘ پر مذاکرے کا انعقاد کیا۔ سید افتخار حسین مضطرؔ خیرآبادی(1927- 1869)، مشہور زمانہ مجاہدآزادی مولانا فضل حق خیرآبادی کے نواسے، معروف ترقی پسند شاعر اور نغمہ نگار جاں نثار اختر کے والد اور مقبول نغمہ نگار و شاعر جاویداختر کے داداتھے۔مضطرؔ کے کلام کوپہلی بار تحقیق و تدوین کے ذریعہ مجتمع کرکے کلیات کی شکل میں’’خرمن‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ کلیاتِ مضطر کی پانچ ضخیم جلدیں ہیں جنکے کے مرتبین جاوید اختر، عبید اعظم اعظمی اور سہیل اختر وارثی ہیں۔۔
اس تقریب کی صدارت ، ہندستانی پرچار سبھا ،ممبئی، کے ڈائرکٹر، رسالہ ’’ہندستانی زبان‘‘ کے مدیر، ہندی زبان و ادب کے معروف قلم کار اور ممبئی رتن ایوارڈ یافتہ سنجیو نگم نے کی۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر مہاراشٹر کے معروف سیاسی گھرانے ،ریاست کے پہلے مسلم وزیر اعلیٰ عبدالرحمن انتولے کے خاندان کے چشم و چراغ اور انجمن اسلام کے نائب صدر مشتاق احمد انتولےنے شرکت کی ۔کلیدی خطبہ جاوید اختر نے دیا۔
ڈاکٹر عبداللہ امتیاز احمد،صدر ِشعبہ اردو کے افتتاحی خطبے سے اس تقریب کا آغاز ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اردو ادب کے لیے یہ ایک اہم کا م اور اضافہ ہے جسے ’’خرمن‘‘ کے مرتبین نے سرانجام دیااورمضطر خیرآبادی کی شاعری کو مرتب کرکے تحقیق کا بہترین نمونہ پیش کیا ۔ اس تحقیق سے اردو ادب میں مضطر خیرآبادی کی شاعری کے حوالے سے تحقیق و تنقید کے نئے دروا ہوں گے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ شعبہ اردو اپنے کسی ہونہار ریسرچ اسکالر سے مضطر خیرآبادی کی شاعری اور ادبی خدمات پر تحقیقی کام کرانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار جاوید اختر نےکلیاتِ مضطر کی ترتیب اور اشاعت کے مقصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے مضطر کی شاعری کے مختلف پہلوؤں اور نکات پر پرمغز خطاب کیا۔ جاوید اختر نے کہاکہ حکومتیں زبانیں نہیں بنا سکتی عوام زبانیں بناتی ہیں۔ آپ نام بدل سکتے ہیں زبان نہیں بدل سکتے۔
عبید اعظم اعظمی، سہیل اختر وارثی اور ڈاکٹر قمرصدیقی نے مضطرؔ کی شاعری پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے ادب میں اس کی اہمیت و افادیت کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔شعبہ اردو سے وابستہ معروف شاعر و محقیق اور معروف ادبی رسالے ‘اردو چینل’ کے مدیر ڈاکٹر قمر صدیقی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مضطر خیرآبادی اردو میں مشرقی شعریات کے آخری نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں. یہ ان کی شاعری کی قوت ہے کہ بغیر طباعت کے ان کے اشعار آج تک زندہ ہیں.
معروف شاعر عبید اعظم اعظمی نے کہا کہ کلیات مضطر کی تحقیق و تدوین ایک دلچسپ تجربہ تھا. یہ کام پورے انہماک اور ذمہ داری سے کیا گیا. یہ کلیات مضطر جیسے غیر معمولی شاعر کے شایانِ شان ہے۔
سہیل اختر وارثی نے کلام مضطر کی خوبیوں کا احاطہ کرتے ہوئے اردو کی شعری روایت اور مضطر خیرآبادی کے کلام میں تصوف کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔
یندوستانی پرچار سبھا ممبئی کے ڈائریکٹر سنجیو نگم نے اپنے صدارتی خطبے میں ’’خرمن‘‘ کی اشاعت کو اردو ادب میں ایک خوشگوارآمد قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس زبان و ادب میں اس طرح کے کام ہوتے رہیں گے اسے کبھی زوال نہیں آسکتا۔ اردو دنیا کی سب سے فعال اور متحرک زبانوں کی صفِ اول میں شمار ہوتی ہے۔
شعبہ اردو کے دیگر اساتذہ ڈاکٹر احرار احمد ، ڈاکٹر محمد تابش خان، ڈاکٹر مزمل سرکھوت اور سنگمترا نوگھڑے نے اس تقریب کے نظم کوخوش اسلوبی اور پوری ذمے داری سے سنبھالا ۔ کثیر تعداد میں سامعین اور طلبا نے شرکت کی۔
شعبہ ءاردو ممبئی یونیورسٹی اپنی ادبی، لسانی اور تحقیقی سرگرمیوں کیلئے مشہور ہے۔ شعبے کی جانب سے ادب زبان کی ترویج اور ادب میں نئے رجحانات اور موضوع پر سیمنار، سمپوزیم اور مختلف پروگرموں کا انعقاد کیا جاتاہے۔