امام حسین سے محبت کا دم بھرنے الوں کو اپنے کردار اور عمل کا جائزہ لینا چاہئے کہ کہیں انکا کردار عبداللہ مطیع جیسا تو نہیں ہے۔
عبداللہ مطیع نامی شخص ایک زمیندار تھا اور جس وقت امام حسین ع کا قافلہ کربلا کی جانب رواں دواں تھا وہ اس وقت اپنی فصلوں میں موجود تھا ۔ اس کی نگاہ قافلہ حسینی پہ پڑی وہ اپنی فصلوں سے نکل کر قافلے کی طرف بڑھا یہ شخص جانتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے یزید کو حاکم ماننے سے انکار کر دیا ھے اور اس کے خلاف قیام کیا ھے اور اپنے خانوادہ کو لیکر عراق کی طرف جارہے ہیں۔ وہ قافلے کے قریب آیا امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور امام سے عرض کیا کہ اے مولا یہ زمینیں یہ فصلیں میری ہیں لیکن مجھے ایک مشکل پیش آئی ھے کہ میرا ایک کنواں ھے جس کا پانی میٹھا تھا ابھی کڑوا ہو گیا ھے کڑوا پانی فصلوں کیلیے نقصاندہ ھے۔ امام اس کیساتھ چل پڑے۔ اس نے کنویں کے پاس آکر بتایا کہ مولا یہ کنواں ھے اس کا پانی کڑوا ہو گیا ھے ۔امام حسین علیہ السلام کنویں کے کنارے پر پہنچے اور کہا اب پانی پیو۔اس نے پانی پیا تو پانی میٹھا ہو چکا تھا وہ بہت خوش ہو ا۔ امام کا شکریہ ادا کیا اور امام سے کہا کہ مولا آپ نے میری اتنی بڑی مشکل حل کر دی آپ بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔
مولا نے فرمایا رہنے دو لیکن اس شخص نے اصرار کیا کہ مولا آپ فرمائیے اگر آپ کہیں تو میں کچھ زمین آپ کو دیدیتا ہوں ۔اناج چاہیے تو اناج دیتا ہوں۔ آپ سفر پر جا رہے ہیں تو میں آپ کو گھوڑا دیدیتا ہوں ۔سفر کیلیے کچھ خرچ دیدیتا ہوں ۔آپ کو تلواروں کی ضرورت ہوگی وہ دیدیا ہوں۔ حتی کہ اس نے کہا میں اپنا غلام آپ کیساتھ بھیج دیتا ہوں لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے
کیا تو نہیں جانتا کہ میں نے یزید کے خلاف قیام کیا ھے اگر تو خود میرے ساتھ چل سکتا ھے تو چل ہمارے قافلے میں شامل ہو جا لیکن عبداللہ مطیع نے امام کے ساتھ چلنے سے معذرت کر لی اور کہا کہ مولا میری بہت ذمہ داریاں ہیں ۔میری فصلیں تیار ہیں ۔میں آپکے ساتھ نہیں چل سکتا ۔۔
یہ واقعہ ہمارے لیے باعث عبرت ھے اگر آج ہم اپنے گریبان میں جھانک کرع دیکھیں تو ہماری اکثریت عبداللہ مطیع کی ہی طرح ھے۔ ہر ایک اپنے مسائل امام کو بتا رہا ہے ۔ہر شخص اپنی حاجات کیلیے امام کو پکار رہا ھے ۔محرم میں پرچیاں لکھ لکھ کر ذاکر تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ کسی کو اولاد چاہیے ۔کسی کو صحت چاہیے ۔کوئی تنگدستی کا شکار ھے ۔ کوئی شبیہ ذوالجناح کے سامنے منت مان رہا ھے۔ کوئی علم عباس ع کے نیچے منت مانگ رہا ھے۔ ہر کوئی اپنی حاجات لیکر اس در پہ آ رہا ھے اور بلاشک و شبہ اس در پہ حاجات بھی پوری ہو جاتی ہیں۔ اھلبیت رسول کریم گھرانہ ھے ۔سائلین کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتے ۔اس در پہ کھڑے ہو کر کوئی علی اصغر ع کا واسطہ دیکر اولاد مانگ رہا ھے تو کوئی علی اکبر کا واسطہ دے کر اپنے جوانوں کی خیر مانگ رہا ھے ۔کوئی لٹی چادروں کا واسطہ دیکر اپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت مانگ رہا ھے ۔
آج وقت کا امام بھی سفر میں ھے لیکن ہم لوگ خود کو نصرت امام کیلیے تیار نہیں کر رہے۔ بس اپنی حاجات لیکر امام کے راستے میں کھڑے ہیں کہ ہماری حاجات پوری کر دیں ۔امام سے نہیں پوچھتے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ کو کیسے افراد کی ضرورت ھے۔ کیا ہم اس معیار پر ہیں یا ہمیں کسی تبدیلی کی ضرورت ھے راہ امام پر ایسے کون سے کانٹے ہیں جو ہمیں ہٹانے ہیں۔
ہمیں ان ایام میں اپنے امام کے قریب ہونا ھے۔ ہمیں اپنی حاجات کی بجائے امام کی منشا کو سمجھنا ہو گا۔۔
(تحریر۔محمد نصیر)