qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگ

خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں!ایک سبق آموز کہانی

یوسف کے گھر کے پیچھے ایک جنگل تھا۔ اس جنگل میں ایک راستہ تھا جو پہاڑ کی چوٹی تک جاتا تھا۔ یوسف اکثر اس پہاڑ کو دیکھتا۔ اسے بچپن سے یقین تھاکہ خدا اس پہاڑ کے بہت قریب رہتا تھا۔ یوسف حسرت بھری نگاہوں سے اس پہاڑ کو تکتا رہتا۔ کئی دنوں سے اس کے دل میں ایک بات تھی جو اسے ستا رہی تھی۔ اس نے کسی کووہ بات نہیں بتائی تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ یوسف نے پہاڑ پر چڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اسے اپنے خدا کو ایک نہایت ضروری بات بتانی تھی۔ وہ جنگل سے ہوتے ہوئے پہاڑ چڑھنے لگا۔ اوپر چڑھتے چڑھتے وہ تھک گیا۔ اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔ اس کے پیروں میں درد ہونے لگا۔ لیکن وہ اوپر چڑھتا گیا۔ اس نے پکاارادہ بنا لیا تھا۔ وہ اپنا کام پورا کرکے ہی دم لے گا۔ آخرکار وہ اوپر پہنچ ہی گیا۔

نیچے پوری بستی اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ یہ خونصورت منظر دیکھ کر اس کا دل خوش ہوا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہوا اپنے ساتھ ہرے پتوں کی خوشبو اڑا رہی تھی۔ اس خوشبو کو سونگھتے ہی، یوسف کا دماغ ترو تازہ ہو گیا۔ اسے ہوا میں اڑتی ہوئی پیاری چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی دی۔ پاس میں امرود کا درخت تھا۔ یوسف کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر امرود کو چھوا۔ پھر امرود کو توڑ کر چکھا۔ امرود ذرا کھٹا تھا۔ اسی وقت یوسف کو یاد آیا کہ وہ یہاں کیوں آیا تھا۔
یوسف نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ اس نے پھر خدا سے دعا کی: ”اے میرے پیارے رب! میں جانتا ہوں کہ تو مجھے سن رہا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر میں خود کو تم سے قریب تر محسوس کر رہا ہوں۔ یہاں اس اونچائی پر ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ میں نے پوری زندگی تیری عبادت کی ہے اور تیری عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بدلے میں میں نے تجھ سے کبھی بھی کچھ نہیں مانگا۔ آج میں چاہتا ہوں کہ میری لاٹری لگ جائے۔ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور قسمت کا مالک تو تو ہی ہے۔ تیری ہی مہربانی سے میری لاٹری لگ سکتی ہے۔

یوسف گھر واپس آیا اور انتظار کرنے لگا۔ ایک ہفتہ گذر گیا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کی لاٹری نہیں لگی۔ اگلے اتوار کو وہ انہیں مشکلوں کا سامنا کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر دوبارہ پہنچا۔
”اے سب سے بڑی طاقت والے، میں نے پوری زندگی تیری عبادت کی ہے۔ پچھلے اتوا رسے پہلے میں نے تجھ سے کبھی بھی کچھ نہیں مانگا تھا۔ میری نوکری چلی گئی ہے اور بہت جلد میرے بچے بھوک سے مرنے والے ہیں۔ مجھ پر اتنا کرم کر دے کہ میری لاٹری لگ جائے۔“ یوسف کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسے یقین تھا کہ اس کا خدا اس کی التجا ضرورسنے گا۔
یوسف گھر واپس آیا اور انتظار کرنے لگا۔ پوراہفتہ گذر گیا لیکن اس کی لاٹری نہیں لگی۔ اتوار کو وہ ایک بار پھر پہاڑ کے چوٹی پرپہنچا۔
”اے خدا میں نے پوری زندگی تیری ہی عبادت کی ہے۔ اور پچھلے دو ہفتوں سے پہلے میں نے تجھ سے کبھی بھی کچھ نہیں مانگا تھا۔ میری نوکری چلی گئی ہے اور پچھلے تین دنوں سے میرے بچوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ میری بیوی بیمار ہے اوراس کے لئے دوا خریدنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اے خدا، مجھ پر رحم کر، تجھے میرے خاندان کا واسطہ، میری لاٹری لگوا دو۔“
اسی وقت بجلی کڑکی اور اوپر سے ایک گرجتی ہوئی آواز سنائی دی۔
”میں دو ہفتوں سے تمہاری التجا سن رہا ہوں۔ جس طرح تم مجھ سے ملنے کے لئے آدھے راستے تک آئے ہو، اسی طرح جب تم محنت کرو گے تبھی تو میں تم کو اس کا پھل دے پاؤں گا۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری لاٹری نکل جائے توکم سے کم لاٹری کی ایک ٹکٹ تو خرید لو۔“

مصنفہ۔ آبیناز جان علی (ماریشس )

سبق۔۔ایک آدمی اس وقت تک کچھ حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ یہ بات نہ سمجھ لے کہ اسے اپنے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ دنیا میں اکیلا ہے اور اس کی بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔ اسے اپنی ذمہ داریوں کو خود ہی سنبھالنا ہوگا۔ اسے اپنے مقاصد خود طے کرنے ہیں۔ اور یہی اس کی تقدیر بن جاتی ہے۔دراصل یوسف آسان طریقے سے پیسے کمانا چاہتا تھا اور وہ محنت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ محنت کے بغیر دنیامیں کوئی بھی کام تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔
پیارے بچوں! اللہ اسی آدمی کو پسند کرتا ہے جو اپنی محنت سے پیسے کماتا ہے۔ اللہ ایسے ہی آدمی کے کام میں برکت دیتا ہے اور اللہ ہی آدمی کا رزق کشادہ کرنے والاہے۔ (تحریر۔آبیناز جان علی ماریشس)

Related posts

اسلامی اسکالر موسیٰ القرنی کی سعودی عرب کی جیل میں موت

qaumikhabrein

علامہ ابن علی واعظ کو سپرد لحد کردیا گیا۔

qaumikhabrein

یہودی عالم نے عرب امارات کی جامع مسجد میں علما کو درس دیا۔

qaumikhabrein

Leave a Comment