
عوامی مقامات پر نماز پڑھنے سے شدت پسند ہندؤوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ پارکوں میں جمعہ کی نماز پر ہندو شدت پسند عناصر ہنگامہ کرتے ہیں۔ بات اب گھروں تک پہونچ گئی ہے۔اگر کسی کے گھر میں بھی با جماعت نماز ہوتی ہے تو بجرنگ دل کے شر پسند اعتراض کرکے ہنگامہ کرتے ہیں۔ پولیس سے اسکی شکایت کی جاتی ہے اور پولیس حکام کو بھی گھر میں نماز پڑھنا جرم نظر آتا ہے اور وہ مکان مالک سے نماز نہیں پڑھنے کو کہتے ہیں۔

معاملہ مراد آباد کے محلہ لاجپت نگر کا ہے۔ یہ علاقہ کٹ گھر پولیس اسٹیشن کی حدود میں آتا ہے۔ علاقے کے مکین ذاکر حسین نے اپنے گھر کے گودام میں تراویح کا اہتمام کیا۔ محلے کے لوگ اور ذاکر حسین کے دوست احباب تراویح کے لئے جمع ہو گئے۔ جماعت کے ساتھ نماز ہو ہی رہی تھی کہ بجرنگ دل کے شر پسند گودام میں گھس آئے اور نماز تراویح کے خلاف ہنگامہ کرنے لگے۔ شر پسندوں کی قیادت بجرنگ دل کا ریاستی صدر روہن سکسینہ کررہا تھا۔
ہنگامہ کی خبر پا کر مقامی پولیس اہلکار موقع پر پہونچ گئے۔ ایس ایس پی نے شر پسندوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ذاکر سے تراویح کی نماز روک دینے کو کہا۔

بجرنگ دل کے لیڈر روہن سکسینہ کا کہنا تھا وہ شہر میں کوئی نئی روایت قائم نہیں ہونے دیگا۔ ذاکر اپنے گھر میں دوستوں کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کرکے نئی روایت شروع کررہا ہے جسے برداشت نہیں کیا جائےگا۔ بجرنگ دل کے شر پسندوں نے پولیس سے ذاکر کے خلاف کیس درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس واقعہ سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ پولیس نے تراویح کی نماز رکوا دی۔ لیکن ابھی ذاکر کے خلاف کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے۔
جہاں تک آئین اور قانون کا معاملہ ہے تو آئین نے ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہبی رسم و رواج پر عمل کرنے کی آزادی دی ہے۔ اپنے گھر میں اگر کوئی مسلمان اپنے دوست احباب کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اسے آئین کی خلاف ورزی نہیں کہا جا سکتا۔ آخر اس قسم کے معاملے میں پولیس قانون کی کون سی دفعہ کے تحت کاروائی کر سکتی ہے۔