qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگقومی و عالمی خبریں

ممتاز شخصیت کے مالک مولانا ممتاز علی۔تحریر ہاشم علی مغمومؔ

عالیجناب مولانا ممتاز علی واعظ(امام جمعہ و الجماعت ،امامیہ ہال، پنچکوئیاں روڈ، نئی دہلی) کے انتقال  پُر ملال کو ایک ہفتہ گزر گیا ۔  اس درمیان مولانا موصوف کے انتقال کی خبریں مختلف اخبارات و رسائل اور سوشل میڈیا پر بھی شائع   ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔محترم مولانا ممتاز صاحب کے انتقال  پُر ملال کے سلسلہ میں مختلف شخصیات اور اداروں کی طرف سے تعزیتی نشستوں اور پیغامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ممتاز صاحب سے متعلق ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی جارہی ہیں۔

امامیہ ہال، پنچکوئیاں روڈ، نئی دہلی کے امام جمعہ و الجماعت  جناب مولانا ممتاز علی صاحب ٥/ نومبر بروز منگل کی رات حرکت قلب بند ہونے کے سبب وفات پا گئے تھے۔آپ کو اگلے دن یعنی بروز بدھ کو دہلی گیٹ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ممتاز صاحب ۱۹۹۲-٫۹۳ سے  امامیہ ہال سے امام جمعہ والجماعت کی حیثیت سے وابستہ ہوئے تھےاور آخری سانس تک اس فریضۂ دینی کو انجام دیتے رہے۔مولانا کا تعلق ریاست اترپردیش کے غازی پور علاقے سے تھا۔

واقعا ًممتاز صاحب کی شخصیت ممتاز اور محترم  شخصیت تھی اور اخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ سے مزین تھی۔ نیک، شریف، خوددار  اور با عمل عالم دین تھے۔مولانا ممتاز کے بارے میں گزشتہ ۸-۱۰ دن میں بہت کچھ لکھا گیا ہےاور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ممتاز صاحب کی جن خوبیوں اور صفات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو بہت سی دیگر شخصیات میں بھی پائی جاتی ہیں  لیکن کچھ خوبیاں ممتاز صاحب میں ایسی تھیں جو دوسری شخصیات میں نہیں پائی جاتی ہیں ، اگر پائی جاتی ہیں تو بہت کم لوگوں میں۔ اسی لئے وہ صرف نام کے ممتاز نہیں تھے بلکہ حقیقت میں ممتاز تھے۔یہاں ممتاز صاحب کی ممتاز خوبیوں میں سے صرف  ایک پر روشنی ڈالی جا رہی ہے  جو ضروری بھی ہے۔

محترم مولانا ممتاز صاحب  کی ذات میں علم دوستی اور فروغ علم کا جذبہ گہرا اور بہت عظیم جذبہ تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مولانا ممتاز صاحب نےفروغ علم اور دینی مسائل سے آگاہی کے لئے ایک عرصے تک کام کیا اور اس کام کے لئے انہوں نے کبھی کوئی پیسہ نہیں لیا ۔بہت سی دیگر شخصیات کی طرح مولانا ممتاز صاحب اپنے کام کی تشہیربھی  نہیں کرتے تھے۔

یہ  ٫۱۹۹۰  عشرے کے اوائل کی بات ہے جب دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے “باڑہ ہندو راؤ” میں ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا”فروغِ عِلم کونسل”کے نام سے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے اس تنظیم کا کام علم کو فروغ اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ سماجی خدمات بھی انجام دینا تھا۔ فروغ علم کونسل دہلی میں صوبائی سطح پر شیعہ طلبا و طالبات کو دسویں اور بارہویں کلاس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر کچھ نقد رقم دیتی تھی اور  ایک شیلڈ اور توصیفی سندبھی۔

امامیہ ہال، پنچکوئیاں روڈ، نئی دہلی  میں کونسل کی طرف سے سالانہ ایک جشن کا انعقاد کیا جاتا تھا جس میں طلبا و طالبات کو انعامات دیئے جاتے تھے  اور کچھ شعرا اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ اسی تقریب میں ایک طالبہ اور ایک طالب علم مقالہ بھی پڑھتا تھا جس کا موضوع علم کی اہمیت ہوتا تھا۔اس جشن میں ایک تقریر مولانا ممتاز صاحب کی بھی ہوتی تھی۔

 علاوہ ازیں، ۷/ربیع الاول کو درگاہ شاہ ِمرداں میں مفت میڈیکل کیمپ کا انعقاد بھی  کونسل کرتی تھی۔ میڈیکل کیمپ میں مفت دوائیں دی جاتی تھیں اور ڈاکٹر کی کوئی فیس بھی نہیں ہوتی تھی۔ اُس وقت شاہ مرداں میں صرف فروغ علم کونسل کی طرف سے ہی مفت میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا جاتا تھا۔

فروغ علم کونسل کی طرف سے  “بڑا گھر”، باڑہ ہندو راؤ، دہلی میں ہر ہفتے ایک  کلاس کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا جس میں مولانا ممتاز صاحب شرعی مسائل بیان کرتے تھے ۔ ممتاز صاحب مغرب کے بعد بلا ناغہ امامیہ ہال سے “بڑا گھر” تشریف لاتے تھے۔ مولانا کو لانے، لے جانے کا انتظام فروغ علم کونسل کرتی تھی لیکن اس درس کی زحمت کے لئے ممتاز صاحب نے کبھی کوئی پیسہ نہیں لیا ۔یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔  مولانا یہ درس  ڈیوٹی کی طرح  ذمہ داری کے ساتھ دیتے تھے۔

بہرحال، فروغ علم کونسل کا چاہے سالانہ جشن ہو یا کوئی اور کام محترم مولانا ممتاز صاحب کی تائید اور سرپرستی اُس کو حاصل تھی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اگر ممتاز صاحب کا ساتھ نہیں ملا ہوتا تو فروغ علم کونسل نے جو کام انجام دیئے وہ انجام نہ دے پاتی۔ کونسل کا ایک فعال شعبہٴ خواتین بھی تھا لیکن افسوس سنہ ۱۹۹۸ ٫ کے بعد سے بعض وجوہات کی بنا پر کونسل غیر فعال ہوگئی۔

قابل ذکر ہے کہ فروغ علم کونسل کے ارکان کی تعداد زیادہ نہیں تھی لیکن جو کام بھی کونسل نے انجام دیا اس کے لئے غیر رکن افراد سے کبھی کوئی چندہ نہیں لیا۔جو بھی اخراجات ہوتے تھے وہ کونسل کے ارکان ہی برداشت کرتے تھے۔

ہاشم علی مغموم۔تہران،صاحب مضمون

جناب محمد اصغر(ولد محمد اخترمرحوم) فروغ علم کونسل کے صدر تھے ،جن کا گزشتہ سال انتقال ہوگیا، اخراجات کا ایک بڑا حصہ محمد اصغر صاحب ہی برداشت کرتے تھے۔ قریش نگر(دہلی) میں ان کا اپنا میڈیکل اسٹور بھی تھا۔ مفت میڈیکل کیمپ میں مریضوں کو دی جانے والی دوائیں بھی اصغر صاحب کی طرف سے فراہم کی جاتی تھیں۔

Related posts

امروہا ایک فعال شخصیت سے محروم۔ نواب انتقام علی خاں نہیں رہے۔

qaumikhabrein

سبزی فروش فیصل کو پولیس اہلکاروں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔

qaumikhabrein

مسجد نبوی میں پاکستانی حکمرانوں کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ

qaumikhabrein

Leave a Comment