آئندہ دسمبر میں نا خدائے سخن میر انیس کی وفات کو ڈیڑھ سو برس مکمل ہو جائیں گے۔ اس موقع پر انہیں منفرد طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا جانے والا ہے۔ جو ایک تاریخی کارنامہ کی حیثیت سے یاد گار ہوگا۔ میر انیس کے کلام کی کلیات شائع کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔۔ میر انیس کی کلیات چار جلدوں پر مشتمل ہو گی۔ یہ پہلا موقع ہوگا کہ میر انیس کے تمام کلام کو کلیات کی شکل میں شائع کیا جائےگا۔ کراچی کی جوہر فاؤنڈیشن یہ تاریخی کارنامہ انجام دینے جارہی ہے۔
میر انیس فیض آباد میں1800 میں شعرا کے ایسے خانوادے میں پیدا ہوئے جسکی شہرت چہا ر دانگ عالم میں تھی۔والد میر مستحسن خلیق اور پردادا میر ضاحک اپنے دور کے استاد شاعر تھے۔ دادا میر حسن اردو ادب کے معروف مثنوی گو شاعر تھے۔ میر حسن نے اردو ادب کو مثنوی ‘سحر البیان’ سے مالامال کیا۔ شاعری میر انیس کی گھٹی میں تھی۔ وہ پانچ چھ برس کی عمر سے ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ میر انیس غزل گوئی اور مرثیہ گوئی میں اپنے والد میر خلیق کے شاگرد تھے۔ کبھی کبھی اپنے والد کے کہنے پر شیخ امام بخش ناسخ کو بھی اپنی غزلیں دکھا لیا کرتے تھے اور یہ ناسخ ہی تھے جنہوں نے انیس کا تخلص انیس تجویز کیا۔ ورنہ اس سے پہلے میر ببر علی انیس۔ میر ببر علی حزیں ہوا کرتے تھے۔10دسمبر1874 میں لکھنؤ میں انکی وفات ہوئی۔
نوجوان ذاکر مصنف،مولف اور محقق علامہ ارتضیٰ عباس نقوی کی اطلاع کے مطابق میر انیس کی برسی کے موقع پر مختلف پروگرام منعقد کئے جائیں گے۔ جن میں سیمنار، انکے ایصال ثواب کے لئے مجالس اور میر انیس کے کلام کی شرح سے متعلق مذاکرے شامل ہیں۔