
میر انیس کے148ویں یوم وفات پر خصوصی مضمون
میرانیس کو مرثیہ نگاری کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔انہوں نے مرثیہ نگاری کو عروج بخشا۔ بر صغیر ہندستان اور پاکستان میں ہونے والی مجلسوں میں آج بھی میر انیس کے مراثی کثرت سے پڑھے جاتے ہیں۔مرثیہ کو میر انیس نے وہ عروج بخشا کہ جہاں ہر دور کے مرثیہ گو پہونچنے کی آرزو کرتے کرتے خاک کا پیوند ہو گئے۔ یہ بھی حقیقت ہیکہ میر انیس شاعر پیدا ہوئے تھے مرثیہ نگار بعد میں بنے۔ انکی شاعری کی باقاعدگی کے ساتھ ابتدا غزل گوئی سے ہوئی تھی۔ مرثیہ نگار سے بہت پہلے میر انیس علاقے میں منفرد طرزکے غزل گو شاعر کی حیثیت سے شناخت قائم کر چکے تھے لیکن کچھ یوں ہوا کہ غزل گوئی سے وہ محمد اور آل محمد کی مدح سرائی کے میدان میں داخل ہو گئے۔اس مضمون میں ہم میر انیس کی مرثیہ نگاری کی بات نہیں کریں گے بلکہ انکی زندگ کے کچھ ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے جو عمومی طور پرکم لوگوں کے علم میں ہیں۔میر انیس ایک عظیم مرثیہ نگار تو تھے ہی وہ ایک فقیر صفت اور نازک مزاج شخصیت بھی تھے۔ امیروں اور رئیسوں کی صحبت سے دور رہتے تھے۔آئیے پہلے انکی پیدائش، خاندان ،زندگی کے ابتدائی دنوں اور غزل گوئی سے مرثیہ نگاری کی طرف آنے کے واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

میر انیس کا حقیقی نام میر ببر علی تھا۔وہ 1803عیسوی میں اتر پردیش کے فیض آباد کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد میر مستحسن خلیق اور پردادا میر ضاحک اپنے دور کے استاد شاعر تھے۔ دادا میر حسن اردو ادب کے معروف مثنوی گو شاعرتھے۔ میر حسن نے اردو ادب کو مثنوی ‘سحر البیان’ سےمالامال کیا۔ شاعری میر انیس کی گھٹی میں تھی ۔وہ پانچ چھ برس کی عمر سے ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔بچپن کی انکی شاعری کچھ اس طرح کی تھی۔
افسوس کہ دنیا سے سفر کر گئی بکری
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں اور مر گئی بکری
۔۔۔۔۔
رونا آتا ہے کہ کیوں میں نے اتارا تعویذ
تم میں کس شخص نے پایا میراپیارا تعویذ۔
میر انیس غزل گوئی اورمرثیہ گوئی میں اپنے والد میر خلیق کے شاگرد تھے۔کبھی کبھی اپنے والد کے کہنے پر شیخ امام بخش ناسخ کو بھی اپنی غزلیں دکھا لیا کرتے تھے اور یہ ناسخ ہی تھے جنہوں نے انیس کا تخلص انیس تجویز کیا۔ورنہ اس سے پہلے میر ببر علی انیس۔میر ببر علی حزیں ہوا کرتے تھے۔غزل گوئی سے مدح گوئی کی طرف آنے کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہیکہ میر انیس کی ایک غزل نے ایک مشاعرے میں دھوم مچا دی۔۔اسکی خبر باپ کو بھی ہوئی۔ باپ نے پوچھا اور بیٹے کی زبان سے اسکی غزل سنی۔باپ کا سینا خوشی اور فخر سے پھول گیا۔لیکن کہا کہ ‘میاں اب غزل کو سلام کہو اور وہ شاعری کرو جو دنیا اور آخرت دونوں میں کام آئے’۔بس اس روز سے میرانیس نے غزل گوئی ترک کردی اور رثائی ادب میں قدم رکھ دیا اور ایسا رکھا کہ مرثیہ گوئی ہی انکا اوڑھنا بچھونا ہو گئی۔

میر انیس مشاعرے میں جس غزل سے دھوم مچا کر آئے تھے اسکے کچھ اشعار یہ ہیں۔
اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
۔۔۔۔۔۔۔
پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعادت مند بیٹے انیس نے اپنے والد کی تلقین کےبعد غزل گوئی ترک کردی اور اسی غزل کی زمین میں یہ سلام نظم کیا۔
گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھاکے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے
۔۔۔۔۔
ملی نہ پھولوں کی چادر تو اہلِ بیتِ امام
مزارِ شاہ پہ لخت جگر چڑھا کے چلے۔
۔۔
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے۔
میر انیس جتنے عظیم شاعر تھے اتنے ہی نازک مزاج اور فقیر صفت انسان تھے۔وہ رئیسوں اور امیروں کی صحبت میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے اسکا ثبوت انکے حیدر آباد کے مختصر قیام کے دوران ملا۔بات سن 1870–71 کی ہے.میر انیس اس وقت کے نظام حیدر آباد میر محبوب علی خاں کے دربار سے وابستہ تہور جنگ کی دعوت پر مجلس پڑھنے کے لئے حیدر آباد گئے تھے۔میرانیس جب حیدر آباد آئے تو تہور جنگ کی حویلی میں ہی قیام پزیر ہوئے۔یہ حویلی اب عنایت جنگ کے حسینیہ کے طور پر مشہور ہے۔نظام حیدر آباد میر محبوب علی خاں کے ایک مصاحبِ خاص نے نظام سے وعدہ کیا کہ وہ میرانیس کو ان سےملاقات کے لئے دربار میں آنے کے لئے راضی کرلینگے۔ نظام کے مصاحب نے میر انیس کو نظام سے ملاقات پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن میر انیس نے یہ کہکر ٹال دیا کہ وہ ایک فقیر آدمی ہیں بادشاہوں سے انہیں کیا لینا دینا۔اسکے بعد اس مصاحب نے یہ کوشش کی کہ میر انیس نظام کی شان میں کوئی قطعہ یا رباعی ہی نظم کرکے مجلس میں پیش کردیں۔میر انیس نے اس گزارش کا بھی مثبت جواب نہ دیا۔مجلس کا دن آگیا۔میر انیس کو سننے اور دیکھنے کے لئے پورا شہر عنایت جنگ کی حویلی پر امنڈ پڑا۔ کیا عام اور کیا خاص۔کیا فقیر اور کیا وزیر۔ ہر شخص میر انیس کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کو سننے کے لئے بے قرار تھا۔حویلی میں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔حیدر آباد میں اس روز تمام راستے بس حویلی تہور جنگ کی طرف جا رہے تھے۔میرانیس کی زبانی مرثیہ سننے کے لئے نظام میر محبوب علی خاں بھی پہونچے۔سوز خوانی ختم ہونے سے عین پہلے میر انیس حجرے سے نکل کر مقام مجلس پر پہونچے اور منبر کے قریب بیٹھ گئے۔انہوں نے ایک رباعی فی البدیہہ نظم کرکے پیش کی۔
بالیدہ ہوں یہ اوج مجھے آج ملا
ظلِ٘ علمِ صاحبِ معراج ملا
منبر پہ نشست سر پہ حضرت کا علم
اب چاہئے کیا تخت ملا تاج ملا۔
ایک تو میر انیس کا مرثیہ اس پر انکے پیش کرنے کا مخصوص انداز مجمع بے اختیار داد دے رہا تھا۔ مجلس پڑھنے کے بعد منبر سے اترتے ہی میر انیس پھر حجرے میں واپس چلے گئے۔نظام نے اپنے مصاحب کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔میر انیس نے آمادگی ظاہر کی۔نظام میر محبوب علی خاں حجرے میں داخل ہوئے۔میر انیس نے شاہان وقت کی خدمت میں روایتی طور پر کیا جانے والا آداب بجالانے کی بھی زحمت نہیں کی۔محض کرسی سے کھڑے ہو کر نظام کا استقبال کیا۔دونوں کے درمیان یہ ملاقات دس پندرہ منٹ کی رہی۔جسکے بعد نظام رخصت ہو گئے۔ میر انیس انکساری کا نمونہ تھے لیکن رعب و داب شاہی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔

میر انیس کے بہت سے شاگرد تھے جو ان سے کسب فیض کرتے تھے۔کہا جاتا ہیکہ انکے شاگردوں میں ایک جن بھی شامل تھا۔واقعہ ڈاکٹر صالحہ عابد حسین نے نقل کیا ہے۔ایک دفعہ انیس سخت بیمار پڑے۔دنیابھر کا علاج کیا لیکن طبیعت بحال نہ ہوتی تھی ایک روز ایک حکیم صاحب انیس کو دیکھنے کے لئے آئے اور توبیٰ کے پتوں کا علاج تجویز کیا۔ اس زمانے میں توبیٰ کے پتوں کا حصول جوئے شیر لانے جیسا تھا۔حکیم نے جب دوا تجویز کی تھی اس وقت انیس کے کئی شاگرد بھی وہاں موجود تھے۔ایک ایک کرکے سب شاگرد رخصت ہو گئے۔ایک شاگرد جانےکے بعد پلٹ کر آیا اور انیس سے کہنے لگا کہ اگر وہ اجازت دیں تو وہ توبیٰ کے پتوں کا بندوبست کر سکتا ہے۔انیس نے حامی بھر دی۔ایک روز بعد اس شاگرد نے توبیٰ کے پتے انیس کی خدمت میں حاضر کر دئیے۔پتے حکیم صاحب تک پہونچا دئیے گئے۔دوا تیار ہو گئی انیس اس دوا کے استعمال سےصحت مند ہو گئے۔ایک روزپھر کچھ شاگرد جمع تھے۔ان میں توبیٰ کے پتے لانے والا شاگرد بھی تھا۔سب رخصت ہونے لگے تو انیس نے اس سے ٹہرنے کےلئے کہا۔جب سب چلے گئے تو انیس نے اس سے اسکی حقیقت دریافت کی۔کافی حیل حجت کے بعد اس نےبتایا کہ وہ ‘زعفر جن’ کا پوتا ہے۔’زعفر جن’ کے بارے میں روایات ہیں کہ وہ میدان کربلا میں امام حسین کی مد د کے لئے آیا تھا لیکن امام حسین نے اسکی مد د قبول نہیں کی تھی۔میر انیس نے اس سے خواہش ظاہر کی کہ وہ ‘زعفر جن’ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔اس نے معزرت کی کہ کام بہت مشکل ہے۔’زعفر جن’ واقعہ کربلا کے بعد سےگوشہ نشین ہیں اور کسی سےملاقات نہیں کرتے۔انیس کے اصرار پر وہ اپنے دادا کو انیس سے ملاقات پر راضی کرنےکوتیارہو گیا۔طے یہ ہوا کہ نماز کے بعد انیس مسجد میں ہی رک جائیں گے۔چنانچہ ایک روز انیس کی ملاقات مسجد میں تنہائی میں ‘زعفر جن’ سے ہو گئی۔انیس نے ‘زعفر جن’ سے کہا کہ چونکہ وہ واقعہ کربلا کے چشم دید گواہ ہیں۔ جو کچھ انہوں نے کربلا میں دیکھا وہ انکی زبان سے سنناچاہتے ہیں۔بعد میں میر انیس نے ‘زعفر جن’ کی زبانی واقعہ کربلا کو اپنے ایک مرثیہ میں نظم کیا۔اس مرثیہ کا پہلا بند یہ ہے۔
پائی یہ خبر زعفر جن نے جو کسی سے
ہوتی ہے لڑائی جگر و جانِ علی سے
سب پھر گئے فرزندِ رسولِ عرَبی سے
ملتی نہیں سید کو اماں فوجِ شقی سے
منھ دینِ محمد سے لعیں پھیرے ہوئے ہیں
اک پیاسے کو دولاکھ جواں گھیرے ہوئے ہیں۔

10دسمبر1874 کواردو ادب کا یہ عظیم شاعر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔وفات کے وقت انکی عمر71 برس تھی۔ لکھنؤ میں انکی قبر ہے۔(قومی آواز۔21ستمبر2022 کو شائع)